لیاقت علی
نومبر 2019 میں بڑی امیدوں، توقعات اور خوش فہمیوں کے ہجوم میں وزیراعظم عمران خان نے کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا تھا۔ عمران خان نے اپنی افتتاحی تقریر میں اسے امن اور خوشحالی کی راہداری قرار دیا تھا۔ وزیر خارجہ قریشی نے اس راہداری کو عمران خان کی ایک بہترین گگلی قرار دیا تھا جس کی بدولت بھارت کی مودی سرکارچاروں شانے چت زمین پرآرہی تھی۔ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس راہداری کی تعریف زمین آسمان کے قلابے ملائے تھے۔
پاکستان کو توقع تھی کہ اس راہداری کی بدولت ہرروزسینکڑوں سکھ یاتری گورودوارہ کرتار پور صاحب میں ماتھا ٹیکنے کے لئے آیا کریں گے اورسکھوں کی اس آمد و رفت سے پاکستان کو بھارت مخالف اور پاکستان دوست جذبات ابھارنے میں مددملے گی۔ لیکن یہ امیدیں ،توقعات اور خوش فہمیاں پوری نہیں ہوئیں اور کرتار پور راہداری کے راستے بھارتی سکھوں سے تعلقات استوارکرنے کا پاکستانی خواب بکھر کررہ گیا ہے۔
سوچنے والی بات ہے کہ راتوں رات کروڑوں روپے خرچ کرکے یہ راہداری اوراس کا انفرسٹرکچر تعمیر کیا گیا تھا پھر ایسا کیا ہوا کہ یہ راہداری امن اور خوشحالی کی راہداری نہ بن سکی اور آج صورت حال یہ ہے کہ یہاں پاکستانی وزٹرز پکنک اور سلفیاں بنانے تو ضرور جاتے ہیں لیکن بھارت سے آنے والےسکھوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان نے پچاس کی دہائی کے اواخر میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ بھارت کے سکھوں کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کرنے ہیں کیونکہ پاکستان بھارت کے ساتھ جو سرحد شئیر کرتا ہے اس پر بھارت کی طرف اکثریتی آبادی سکھ ہے۔ یہ فیصلہ فوجی نقطہ نظرسے کیا گیا تھا۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی بدولت ہماری فلموں میں سکھ کردار بے وقوف، اجڈ، بدتمیز مگر مخلص اور وفاشعار ہوتا ہے جسے ہندو بنیا جو کمینہ، غدار سازشی ہوتا ہے کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرلیتا ہے۔مسلمان اور سکھ دوست ہندو بنیے کے خلاف مشترکہ طور پر لڑتے اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔مسلمان اور سکھ اس لئے دوست ہیں کہ دونوں توحید پرست ہیں جب کہ ہندو بت پرست اور دونوں کا مشترکہ دشمن یہ سٹوری لائن عام طور پر ہماری فلموں کی ہوتی تھی۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ جہاں کشمیریوں کو آزادی کے نام پر ابھارتی ہے وہاں وہ سکھوں کو بھی ایک علیحدہ ملک خالصتان کے قیام کی شکل دیتی ہے۔ دوچار سکھوں کو پاکستان کی سکیورٹی اداروں میں بھرتی کرکے انھیں پوسٹر بوائز کا روپ دیا گیا ہے۔ سکھ یاتریوں کے اعزاز میں استقبالیے۔ لنچ اور ڈنرز دیئے جاتے ہیں سکھوں کو مذہبی سیاحت کے نام پر فراخدلی سے ویزے دیئے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بھارت سرکار کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتا ہے۔ وہ یہ کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ بھارت سرکار کو نظرانداز کرکے پاکستان اور سکھوں کی دوستی قائم ہو چنانچہ وہ سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد کی راہ میں روڑے اٹکاتی اور ہر ممکن طریقہ سے انھیں پاکستان جانے سے روکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کرتار پور راہداری کا یہ پراجیکٹ ناکام ہوگیا ہے کیونکہ بھارت سرکار کو نظرانداز کرکے پاکستان سکھوں سے دوستی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا اگر پاکستان چاہتا ہے کہ سکھ پاکستان اپنے مذہبی مقامات کی یاترا کے لئے آئیں تو اس کے لئے سکھوں کی بجائے بھارت سرکار سے دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے اور یہی وہ راستہ ہے جس میں دونوں ممالک کے عوام جن میں سکھ بھی شامل ہیں کی بہتری اور خوشحالی مضمر ہے۔
♥