آئینہ سیدہ
عدل کی کرسی جہاں بے انتہا مضبوط ہوتی ہے وہیں اُسپر بیٹھا شخص پلِ صراط پر چلنے والا وہ خوفزدہ انسان ہوتا ہے جس کی انصاف سے روگردانی ایک منٹ میں اُسکو جنت سے جہنم میں دھکیل دیتی ہے .افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اِس کرسی پر بیٹھنے والوں نے عوام کو ہمیشہ اتنا ہی مایوس کیا ہے جتنا دوسرے “حساس اداروں ” نے .اپنے فرایض منصبی کو ادا نہ کرنا اور دوسرے اداروں کے کام میں بد نیتی سے مخل ہونا اب قومی کلچر بن چکا ہے جسکے بد اثرات نے معاشرے کو تقریبا ناقابلِ مرمت کردیا ہے۔
انصاف کے دہرے میعار نے منصفوں کے چہرے پر سے نقاب تو بہت پہلے اٹھا دیے تھے مگر اب تو ایسی حد آچکی ہے کہ “محترم ” کہلانے والے ججز کو گھروں ، محلوں ، گلیوں میں بیٹھے افراد گالیاں دے رہے ، جھولیاں اٹھا کر بد دعا ئیں دے رہے اور ہم سوچ سکتے ہیں کہ جس ” ریاست مدینہ ” میں” قاضی القضاء ” پر پاکستان مین بولے جانے والی ہر زبان میں دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہو اس ریاست کا انجام کیا ہوگا ؟
نسلہ ٹاورکو بموں سے منہدم کرنے کا فیصلہ ہو یا گجرنالہ کومسمار کرنے کا یا پھر ہزاروں برسرروزگار افراد کے یک جنبش ِ قلم چولہے ٹھنڈے کرنے کا، پاکستان کی سپریم کورٹ میں بیٹھی “جج ” نامی مخلوق نے نہایت تکبر سےعام شہریوں سے وہ بد سلوکی کی ہےجو پاکستان کی عدالتی تاریخ پر کلنک کا ٹیکہ بنی رہے گی . کمزوروں پر دانت گاڑنے والے یہی جج دوسری طرف بنی گالہ کے محلات ،بحریہ ٹاؤن اوراسکی زیر نگرانی کراچی سے پشاور تک تعمیر ہوتی غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیز پرنہ صرف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں بلکہ کوئی اپیل وغیرہ اِن تک پہنچ جائےتوجرمانے کے نام پر غیر قانونی تعمیر کو قانونی بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری دن تک اپنی لاکھوں کی پنشن اور بے تحاشہ مراعات کے بعد بھی انکو “نئی نوکری ” کی فکرپڑی ہوتی ہے مگر کس جلاد صفت بےرحمی سے سوئی گیس کے ادارے سے ہزاروں افراد کو بیروزگاری کے اندھے کنوئیں میں دھکیل گئے۔ یہ دکھڑا بھی عام لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سامنے لاسکےہیں کیونکہ حکومتِ وقت انکی باندی اورمیڈیا انکا غلام جو ٹھہرا۔
مجھے نہیں معلوم کہ نسلہ ٹاور میں امیر لوگ رہتے ہیں یا غریب یا پھروہ مڈل کلاس طبقہ ، جو پاکستان کی جمہوریت کو تباہ کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہا، میں یہ بھی نہیں جانتی کہ اس ٹاور میں کونسا لسانی گروپ رہتا ہے یا سیاسی طور پر یہ لوگ کس سیاسی پارٹی کے ووٹرز ہیں اور میں یہ سب جاننا بھی نہیں چاہتی کیونکہ یہ سب معلومات حاصل ہوجائیں تو ہماری انسانی حقوق کے لیے اٹھتی آواز یں یا تو دب جاتی ہیں یا بالکل ہی غائب ہوجاتی ہیں۔
مجھے بس اتنا علم ہے کہ لوگ کس قدر تکلیف اٹھا کر ، پائی پائی جوڑ کر اپنے گھر بناتے ہیں ، کس کی زمین تھی اور کس نے بے ایمانی کی نہ وہ جانتے ہیں نہ یہ انکا قصور ہے کیوں کہ ریکارڈ بتا رہا ہے یہ معاملہ پچھلی چھ دہائیوں سے چل رہا ہے اور چھ دھائیوں سے مراد یہ کہ پاکستان کی سب سے زیادہ کرپٹ شہری حکومتیں جو فوجی آمروں کی ناک تلے پنپتی ہیں وہ بھی اس تمام قضئیے میں ملوث رہیں اور یقیناً اُن کی کرپشن اتنی ” ڈسپلنڈ ” ہوتی ہے کہ اس کرپشن کا ملبہ بیس تیس سال بعد کسی معمولی اہلکار پر ہی گرتا ہے کسی طاقتور اور بااختیار پر نہیں سو ایسے میں مجبوراورلاعلم لوگوں کے سروں سے چھت کھینچنا اور وہ بھی “دہشت گردانہ “احکامات کے ذریعے یعنی ہفتے بھر کی مہلت میں عمارت میں رہائش پذیربچوں، عورتوں ، بزرگوں اور بیماروں کو بجلی، گیس، پانی سے محروم کر دیا جائے اور پھر اِن لوگوں کی برسوں سے سجائی رہایش گاہوں کو ” بم “سے اڑا دیا جائے ایک نہایت ناپسندیدہ امر ہے اور یہ نفرت انگیز کام اُس صوبائی، منتخب حکومت کو کرنا ہے جس کی گردن پر ہر وقت وفاق ، فوج اورعدلیہ نے مل کر چھری رکھی ہوتی ہے تاکہ ذرا سی چوں چرا ہو توچھری پھیرکر کوئی آئینی بحران پیدا کیا جاسکے یعنی ایک تیر سے دو شکار۔
عام عوام کے خلاف یہ امتیازی فیصلےانسانی حقوق اورانصاف کے ساتھ حد درجہ ناانصافی ہیں جس کی نہ اخلاق اجازت دیتا ہے نہ ملکی قوانین اور نہ ہی “ریاست مدینہ ” کے دعوے داروں کے ماضی کے نعرے۔
ان منصفوں کے دہرے معیار انکی دہری شخصیت کی غمازی کرتے ہیں یہی خود پسند جج ہیں جو توہینِ جج کو توہینِ عدالت بنا دیتے ہیں اور پھراِس خود پسندی پر شرمندہ ہونے کی بجائے اِسکے خلاف آوازیں اُٹھانے والے افراد کو جیلوں میں ڈال کر بھول جا تے ہیں یہ تو ایسا تکبر ہے جس کو قدرت معاف نہیں کرے گی اور آنے والا وقت آج کی عدلیہ اور اسکے فیصلوں کی کالک کو کبھی بھی دھونہیں پائے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں یوں تو عدلیہ نے بہت سے ناقابل بیان قسم کے افسوسناک فیصلے دیے ہیں جس سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوا مگر ماضی قریب میں افتخار چودھری کے سیاسی فیصلوں سے جو بے وقاری کا سفر شرو ع ہوا تھا ثاقب نثار ، آصف کھوسہ سے ہوتا ہوا جج گلزار تک پہنچ گیا ہے اور جس قسم کے فیصلے آج کی عدلیہ کر رہی ہے وہ ثابت کرتے ہیں کہ انصاف کا مردہ تدفین کے انتظار میں سرانڈ دینے لگا ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ بنی گالہ اور گجر نالہ میں فرق کرنے والے ناانصاف ججز کسی دھونس دھمکی کی وجہ سے ایسے امتیازی فیصلے کر رہے ہیں یا اپنے لیے پلاٹوں کے لالچ میں ، مگر یہ بھول رہے ہیں کہ جہاں یہ موجود ہیں وہ سدا رہنے کی جگہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کوئی خوف کی جگہ کائنات میں بنی ہی نہیں کیوں کہ جو عدل کے نام پر عدل سے ہٹ گیا اسکا نام و نشان مٹ گیا۔
بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ان عدل کے ایوانوں میں تکبر کی بولیاں بولنے والے کم ظرفوں کے لیےپیرزادہ قاسم کے اشعار پیش خدمت ہیں اگر دل میں کچھ خدا کا خوف اور روح میں انسانیت باقی ہے تو ڈریں اُس وقت سے جب مخلوق ِخدا کے بولنے کی باری آجائے گی
ابھی تو آپ ہیں اور آپ کا زورِ خطابت ہے “
بہت الفاظ ہیں نادر، بہت بے ساختہ جملے
ابھی تو لب کشائی آپ کی اپنی گواہی ہے
ابھی تو آپ ہیں ظلِّ الٰہی، آپ ہی کی بادشاہی ہے
ابھی سب زر، جواہر، مال و دولت آپ ہی کے ہیں
ابھی سب شہرت و اسبابِ شہرت آپ ہی کے ہیں
ابھی کیا ہے، ابھی تو آپ کا جبروت لہجے میں عیاں ہو گا
ابھی تو آپ ہی کے نطق و لب سے آپ کا قصہ بیاں ہو گا
ابھی تو محترم بس آپ ہیں، خود اپنی نظروں میں
معظم، محتشم القاب ہیں خود اپنی نظروں میں
ابھی تو گونجتے اونچے سُروں میں آپ ہی ہیں نغمہ خواں اپنے
سبھی لطف و کرم گھر کے، مکان و لا مکاں اپنے
ابھی تو آپ ہی کہتے ہیں کتنا خوب کہتے ہیں
جو دل میں آئے کہتے ہیں، جو ہو مطلوب کہتے ہیں
مگر جب آپ کی سیرت پہ ساری گفتگو ہو لے
“تو یہ بھی یاد رکھیے گا………….. ابھی تک ہم نہیں بولے