مبارک حیدر
تہذیبی نرگسیت نامی کتاب کے آخری باب میں طالبان سے کچھ سوال پوچھے گئے تھے ۔ ظاہر ہے اتنے طاقتور لوگ سوالوں کے جواب نہیں دیتے ۔ تاہم وہ سوال قائم ہیں کیونکہ یہ انسانی زندگی کے لئے اہم ہیں۔ اب جبکہ انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی ہے تو طالبان اور ان کی حامی قوتوں کے حوصلے اور بھی بلند ہونا فطری ہے ۔ لیکن الجھے ہوئے سوال کچھ اور الجھ گئے ہیں ۔
طالبان کی فتح کو کچھ ہفتے ہی ہوئے ہیں لیکن اسلام کے ایک اور دعوی دار نے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے ۔ چونکہ قرآن اور حدیث نے کوئی سیاسی نظام دیا ہی نہیں ، لہٰذا ” اور اسلام چاہئے” کی تحریک کبھی مکمل نہیں ہو پاتی ۔
پہلے جماعت اسلامی اٹھی جس نے کہا پاکستان اور دنیا غلط ہے ، اسے اسلام کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ قرارداد مقاصد کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر مذھب کے لوگوں کو پابند کر دیا گیا کہ ان کے منتخب نمایندے ہر فیصلہ اسلامی علما سے پوچھ کر کریں گے ۔ یہ ہو گیا تو الله اور اسلام کے وارثوں نے کہا “نہیں یہ نا کافی ہے “۔ چنانچہ ملک میں گلی گلی مدرسوں اور مسجدوں کا ظہور ہوا اور آواز آئی ” اور اسلام لاؤ ، اسلام کم ہے ” ۔
جب اور اسلام آیا تو آواز آئی سب تباہی اور کرپشن اس لئے ہے کہ ہم نے اسلام کو بھلا دیا ہے ، اسلامی حکومت چاہئے ۔ چنانچہ طالبان کا ظہور ہوا اور ہماری اسلامی افواج پاکستان نے افغانستان میں اسلامی امارات قائم کر دی ۔
ہمارے کچھ حکمرانوں نے اسلام کی اس ابھرتی ہوئی قوت سے اختلاف کیا تو پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ تب آواز آئی “پاکستان ، طالبان اور ریاست مدینہ چاہئے“۔
ابھی یہ چل رہا تھا تو داعش کی للکار اٹھی ہے کہ ” امارات اسلامی غلط ہے ، دنیا کو خلافت اسلامی چاہئے ” ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اسلام کا یہ قافلہ کہاں رکے گا ؟ ہم کہتے ہیں ” اور اسلام ! اور زیادہ اسلام ! اور بھی زیادہ اسلام ! انتہائی زیادہ اسلام !” ۔۔۔ لیکن اس انتہائی اسلام کے پرچم و مینار کے سائےتلے مسلمان عورت کے ساتھ مسلمان مرد دن دھاڑے حسب توفیق اجتماعی زنا بالجبر کر رہے ہیں ، جرم اور گناہ کی کونسی شکل ہے جس میں ہم دنیا کے لیڈر نہیں ؟
چنانچہ کچھ نئے سوال اٹھ کھڑے ہیں ۔ کیا پاکستان کو یقین ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان متحد نہیں ہو جائیں گے ؟ کیا فاٹا اور شمالی علاقہ جات ، طالبان کے “اصلی اسلام” کی کشش سے بچ جائیں گے ، وہ کشش جو خود ہم نے ستر سال کی محنت سے پیدا کی ہے ؟
کیا یہ ذہین، تجربہ کار ، فاتح طالبان ، جنھیں چین اور روس گلے لگانے کو تیار ہیں ، آج بھی ہماری قیادت میں چلنے کو تیار ہونگے ؟ کیا اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ طالبان کی طاقتور حکومت اپنے وسائل کو بڑھانے کے لئے اپنی سٹرٹیجک گہرائی پاکستان میں بڑھاے گی جیسے ہم ایک مدت تک افغانستان میں بڑھاتے رہے ہیں؟ کیا افغان طالبان بھارت کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے ہم سمجھ رہے ہیں ؟ کیا انہوں نے کوئی ایسا عندیہ دیا ہے ؟ چین اور روس طالبان کی حکومت سے کیا کام لینا چاہتے ہیں ؟ کیا یہ طاقتیں پاکستان کو “سیدھے راستے” پر رکھنے کے لئے طالبان کا دباؤ استعمال نہیں کریں گی ؟
ایسے کئی سوال اس وقت افق کی دیوار پر لکھے دکھائی دیتے ہیں ! ! لیکن ہم ایک ہی آواز سن رہے ہیں “ابھی اسلام کم ہے “۔
♥