گو کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت بن چکی ہےمگر اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ یہ ابھی تک طے نہیں ہوسکا۔ ابھی تک کسی بھی ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا۔امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدہ میں جن گیارہ نکات پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی ، جب تک ان پر عمل نہیں کیاجاتا افغانستان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیاجائے گا۔
دوحہ مذاکرت اور پھر معاہدے پر دستخط کرنے والے مُلا عبدالغنی برادر کو عملاً غیر فعال کر دیا گیا ہے اور حکومتی امور میں سراج الدین حقانی کا عمل دخل زیا دہ ہے۔ اس وقت افغان کابینہ میں حقانی گروپ کے چار نمائندے ہیں۔ طالبان کے بے شمار گروپوں میں کوئی چیز مشترک نہیں جس کا جس علاقے پر قبضہ ہے وہاں اپنی مرضی کا قانون نافذ کیے بیٹھے ہیں اور آنے جانے والوں سے ٹیکس یعنی بھتہ وصول کرنے پرگذارہ ہورہا ہے۔ ملک کا معاشی نظام کیسے چلانا ہے اس کے لیے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔
افغانستان کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے، جن شہریوں کے بینک میں کچھ رقم بھی موجود ہے وہ کوئی واضح نظام نہ ہونے کی وجہ سے اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے رقم بھی نہیں نکال سکتے۔یہ مغربی ممالک ہی ہیں جو انسانی ہمدردی کے ناتے امدادی سامان افغانستان بھیج رہےہیں۔ جبکہ چین اور روس خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
طالبان نے افغانستان کو اسلامی امارات قرار دیا ہے اور شریعت نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماضی کے برعکس کوئی بھی مغربی ملک، طالبان کی حکومت کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ مغربی ممالک بس اتنا چاہتے ہیں کہ کہیں افغانستان کی سرزمین پھر سے شدت پسندوں کا ٹھکانہ نہ بن جائے۔ حالانکہ طالبان کی قیادت نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم مغربی ممالک پاکستان سے بھی تعاون کے خواہاں ہیں تاکہ وہاں مبینہ سرگرم شدت پسند تنظیموں پر قابو پا یا جا سکے۔
دوسری طرف طالبان کو پوری آزادی ہے کہ وہ شریعت پر مبنی حکومت قائم کریں۔ تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ جس شریعت کے نام پر بیس سال قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا اب وقت آگیا ہے کہ اس پر عمل درآمد کر دیا جائے ۔
مبارک حیدر لکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن اور حدیث نے کوئی سیاسی نظام دیا ہی نہیں ، لہٰذا ” اور اسلام چاہئے” کی تحریک کبھی مکمل نہیں ہو پاتی ۔اس لیے شریعت کا پہلا نشانہ خواتین ہی بنتی ہیں اور پندرہ سو سال پہلے کے معاشرتی قوانین کو نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
شعیب عادل