بیرسٹر حمید باشانی
کچھ امریکی دانش ور افغانستان کے باب میں اپنی ریاست کے حالیہ اقدامات اور حکمت عملی پر سخت ناراض ہیں۔ ان کی ناراضی بے وجہ نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کشی کا بنیادی اور آخری مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور خفیہ ٹھکانوں کو ختم کیا جائے۔ لیکن آگے چل کراس مقصد کے حصول کے لیے اس وقت کی مقامی افغان حکومت کا خاتمہ بھی لازم ٹھہرا۔
اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ اس حکومت پر دہشت گردوں کی پشت پنا ہی اور ان کو اپنی سر زمین پر پناہ فراہم کرنے کا الزام تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو افغانستان میں ایسی حکومت کی ضرورت تھی، جو دہشت گردی کے خلاف امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑائی لڑنے پر تیار ہو۔ اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ مقامی حکومت کی تبدیلی اور اس کی جگہ اپنی مرضی کی حکومت کا قیام بھی افغانستان میں امریکی حکومت کا بنیادی ایجنڈا بن گیا۔ ان امریکی دانش وروں کا خیال ہے کہ یہی وہ ایجنڈا تھا، جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان کی دلدل میں دھنس گیا، اور دھنستا ہی چلا گیا۔
آگے چل کر یہ ایجنڈا امریکی ایمپائر کے لیے ایک نا قابل برداشت بوجھ بن گیا، اور حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ افغانستان سے نکلنا امریکہ کی سب سے بڑی خواہش اور ضرورت بن گئی۔ جلد انخلا کی خواہش اور بیتابی نے دنیا کی اس واحد سپر پاور کو ایک تباہ کن صورت حال سے دوچار کر دیا۔ ان دانش وروں کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ افغانستان میں فوجی کشی کا نہیں تھا۔ اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی اتنا بڑا چیلنج تھا، جس میں امریکہ کو ناکامی کا اندیشہ ہوتا۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خاطر خواہ کامیابی کے بعد افغانستان سے نکلنے سے پہلے وہاں اپنی مرضی کی حکومت یا نظام لانے پر اصرار کیا۔ امریکہ ماضی میں اس طرح کے ایجنڈے پر کئی بار عمل کر چکا تھا، اور اسے اس باب میں سخت تلخ تجربہ تھا۔ لیکن اس نے اس تلخ تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
دنیا میں” رجیم چینج” یعنی مقامی حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکہ کی طرف سے فوجی مداخلت کی تاریخ بہت پرآ شوب اور طویل ہے۔ سن 2003کے موسم بہار میں ایک امریکی سیاسی سائنسدان منکسن پائی نے ان فوجی مدا خلتوں کا جائزہ لیا، جو امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں ” حکومت کی تبدیلی” یعنی رجیم چینج کے لیے کیں تھیں۔ اس نے ان مدا خلتوں کی کامیابی یا ناکامی پرکھنے کا جو معیار مقرر کیا، وہ یہ تھا کہ امریکہ کے کسی خاص ملک سے نکل جانے کے دس سال بعد بھی کیا وہاں جمہوریت موجود تھی؟ یعنی کیا امریکی انخلا کے بعد بھی اس ملک میں جمہوری نظام کام کر ر ہا تھا۔ اس نے سولہ ایسے ملکوں کو اپنے مطالعے کا مرکز بنایا۔ اس مطالعے کی روشنی میں اس نے ثابت کیا کہ ان سولہ میں صرف چار ایسے ممالک تھے، جن کو کامیاب جمہو ریتیں قرار دیا جا سکتا تھا۔ ان میں دو بڑے ملک جرمنی اور جاپان تھے، جن کی کامیابیوں سے دنیا آگاہ ہے۔
ان دونوں ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کی المناک شکست کے بعد اپنے آپ کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد دو چھوٹے ملک پانامہ اور گرینیڈا تھے، جن میں امریکہ نے مختصر مدت کے لیے فوجی مداخلت کی تھی۔ ان کامیاب ملکوں میں بہت سی باتیں مشترکہ تھیں۔ ان میں ایک چیز ماضی کے کامیاب تجربات تھے، جو وہ ملک میں معاشیات اور سیاسیات پر کر چکے تھے۔ دوسرا قدر مشترک یہ تھی کہ ان سارے ممالک کو ماضی میں ایک باقاعدہ اور منظم ریاست چلانے کا تجربہ تھا۔ ان ممالک کے اندر سماجی و معاشی عدم مساوات نسبتاً کم تھی۔ نسلی اعتبار سے بھی ان ممالک میں ہم آہنگی اور یکسانیت زیادہ تھی، اور ایسے تضاد ات کم تھے، جو اکثر ممالک میں امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد خانہ جنگی کا باعث بنتے ہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت یہ مطالعہ سامنے آیا، اس وقت امریکہ جنگ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں تعمیر نو اور جمہوری سماج کے قیام کا ارادہ کر رہا تھا، جس پرآگے چل کر اس نے عمل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کئی سالوں بعد امریکہ کو افغانستان میں تعمیر نو اور جمہوریت کے قیام میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح دنیا میں امریکی فوجی مداخلت کے ذریعے تبدیلی لانے کے عمل میں ناکامی کی شرح تقریباً چھیاسی فیصد سے زیادہ ہو گئی۔ اس نا کام تجربے سے بے شمار اسباق سیکھے جا سکتے ہیں۔
سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی ملک میں مداخلت سے پہلے اس ملک کی تاریخ ، ثقافت اور اقدار کا علم اور جائزہ ضروری ہے۔ امریکہ ان عناصر کو پس منظر کے طور پر تسلیم کرتا رہا، جبکہ ضرورت اس امر کی تھی، کہ ان عناصر کو جنگ کے دوران اور بعد کی تعمیر نو میں ایک اہم ترین اور فیصلہ کن عنصر کے طور پر لیا جاتا۔ جس سے یہ طے کرنے میں آسانی ہوتی کہ افغانستان جیسی تاریخ ، کلچر اور اقدار رکھنے والے ملک میں جمہوریت روایات کے مطابق حکومت کی تشکیل کا کون سا طریقہ کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسرا یہ کہ افغانستان میں جو کچھ ہوا ا سکی وجہ امریکی انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں تھی۔ یا اس کو امریکیوں کی جہالت قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس کی وجہ فوجی اور سیاسی لیڈروں کی طرف سے حقا ئق تسلیم کرنے سے انکار تھا۔ وہ صرف وہی بات سنتے تھے، جو وہ سننا چاہتے تھے۔ اس صور حال کا جائزہ صدر اوبامہ نے اپنی خودنوشت میں لیا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران اس نے افغانستان میں امریکی حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لیے دو ماہ پر محیط ایک مطالعے کا بندو بست کیا تھا۔ اوباما نے لکھا ہے کہ اس مطالعے سے ایک چیز واضح ہو گئی کہ ہماری کوششیں رائیگاں جا سکتی ہیں، اگر طالبان کو پناہ کی سہولیات حاصل ہیں۔ اس سبق کا فائدہ ہوتا اگر امریکہ افغانستان کی تعمیر نو اور “نیشن بلڈنگ” کا منصوبہ ترک کر دیتا۔
تیسرا سبق طریقہ کار سے متعلق تھا۔ امریکیوں کامیابی کے لیے صرف فوج پر بھرو سہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ فوج کا کام اس مشن کو پورا کرنا ہوتا ہے ، جو اس کو دیا جاتا ہے۔ جب مشن کا آغاز ہو چکا ہو تو درمیان میں فوجی لیڈرشپ مشکلات کا اظہار کر سکتی ہے۔ زیادہ وسائل اور اسلحے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ لیکن وہ مشن کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں بات نہیں کر سکتی۔ یہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کا کام ہوتا ہے۔اس طرح جاری مشن کی تکمیل یا اس میں تبدیلی کے لیے امریکی صدر کسی مقام پر فوجی قیادت کی بات ماننے سے انکار کر سکتا ہے۔
اس کی حالیہ مثال جو بائیڈن کا انخلا کا فیصلہ تھا۔ انہوں نے کچھ جنرلوں کے مشورے کے باوجود افغانستان سے فوجیں نکالنے کا عمل مکمل کیا۔ یہی کام اس سے پہلے صدر اوبامہ اور ٹرمپ فوجی قیادت کے مشورے پر موخر کر چکے تھے۔جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد افغانستان کی ایک جدید جمہوری ملک کے طور پر تعمیر ایک نوبل سوچ تھی۔ لیکن عملی طور پر اس مقصد کے لیے جو بندوبست کیے جاتے رہے، وہ زیادہ تر فوجی طاقت کے ذریعے بروئے کار آتے رہے، ان کا جمہوریت اور عوام سے وہ تعلق استوار نہ ہوا، جس کی ضرورت تھی۔
اس طرح جمہوریت کے نام پر بد عنوان لوگوں کے گروہ اور “ایلیٹسٹ” مسلط ہوتے رہے، جو اپنی بقا کے لیے عوام کے بجائے امریکی سیکورٹی فورسز کے مرہون منت تھے۔ جب امریکی فورسز کے انخلا کا حتمی فیصلہ ہوا تو ان لوگوں کے پاوں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ اس قبیل میں حکومتی عہدے دار اور فوجی عہدے دار سب شامل تھے۔
♣