بیرسٹر حمید باشانی
اگست1947 میں برصغیر کی تقسیم سے کچھ ماہ پہلے تک امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ بر صغیر کی تقسیم اور اس سے جڑے دیگر معاملات کو حکومت برطانیہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین کی پالیسی یہ تھی کہ برصغیر میں طاقت کی منتقلی حکومت برطانیہ اور برصغیر کے مختلف سیاسی گروہوں اور جماعتوں کا اندرونی معاملہ ہے۔ برطانیہ اس خطے میں اپنے طویل تجربے، وسیع اثرو رسوخ اور قریبی روابط کی وجہ سے خطے کے ممالک کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس خطے کے معاملات برطانیہ کو دیکھنے چاہیے، اورامریکہ بوقت ضرورت اس کی مدد کرے گا ۔ لیکن تقسیم کے دوران اور اس کے فورا بعد جو صورت حال سامنے آئی، اس میں امریکہ کے لیے یہ پالیسی جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔
تقسیم کے صرف دو ماہ بعد اکتوبر 1947 میں بھارت نے امریکہ سےامداد کی درخواست کی تاکہ ان پچاس ہزار لوگوں کو نکالا جا سکے، جو پشاور میں فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوئے تھے۔ان لوگوں کو پشاور سے امرتسر تک لے جانے کے لیے امریکی طیاروں اور مالی امداد کی درخواست کی گئی۔ بھارت کی اس درخواست کی اس وقت کے بھارت میں مقیم امریکی ایمبیسیڈر سر ہنری نے پر جوش حمایت کی۔ اس نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ یہ درخواست منظور کرلی جائے ۔ لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ہیری ٹرومین اور سیکرٹری آف سٹیٹ جارج مارشل نے جواب دیا کہ اس طرح کی کسی امداد کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کی طرف سے مشترکہ درخواست کی جائے۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ امریکا دونوں ممالک کی طرف ایک متوازن رویہ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
دسمبر 1947 میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ٹاپ آفیشل کی میٹنگ میں دولت مشترکہ کا معاملہ بڑی تفصیل کے ساتھ زیر بحث آیا ۔ اس موقع پر اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ برصغیر کے دونوں ممالک انڈیا اور پاکستان کو آپس کے معاملات پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دے۔ دولت مشترکہ کےسامنے اس وقت برصغیر میں سب سے بڑا تنازعہ، مسئلہ کشمیر تھا۔ اس مسئلے پر1947کے موسم خزاں میں دونوں ممالک میں جنگ چھڑ چکی تھی۔ اس جنگ کے آغاز کے فورا بعد اپنی غیرجانبدارانہ حثیت کو برقرار رکھنے کے لئے صدر ہیری ٹرومین نے انڈیا اور پاکستان دونوں کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کر دی تھی۔
اگرچہ برصغیر کے بارے میں امریکی حلقوں میں بہت سارے خدشات پائے جاتے تھے ۔ ان کے خیال میں برصغیر میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک ” فل سکیل” جنگ ساؤتھ ایشیا کو بالکنائزیشن کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اور اس خطے میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے امریکہ اپنے آپ کو جنوبی ایشیاء میں کشمیر جیسے بڑے تنازعات سے لا تعلق نہیں رکھ سکتا۔ لیکن اس کے باوجود وقتی طور پر انہوں نے یہ پالیسی اپنائی کہ مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر کامن ویلتھ کا مسئلہ ہے، اور اسے کامن ویلتھ پر ہی چھوڑ دینا چاہیے ۔
اس سلسلے میں امریکی انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ اور برطانوی نمائندوں کے درمیان جو مذاکرات ہوئے ، ان میں امریکی سیکریٹری نے کہا کہ بر صغیر میں امریکی مداخلت کےدو وجوہات کی بنیاد پر غلط نتائج نکل سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی وجہ سے امریکی کانگریس کی توجہ بٹ جائے گی، جو یورپ کی تعمیر نو میں مصروف ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس عمل کی وجہ سے اس مسئلے میں سوویت یونین کی توجہ اور دلچسپی بڑھ سکتی ہے، جو برصغیر میں سرد جنگ کے آغاز کا باعث بننے گی۔ امریکی پالیسی سازوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو بھی حکومت کشمیر میں مداخلت کرے گی، وہ انڈیا اور پاکستان دونوں کی دشمنی مول لے گی۔
ان وجوہات کے پیش نظرصدر ہیری ٹرومین برصغیر کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ اس سلسلے میں اس نے واضح کیا کہ اگر برصغیر میں کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے کسی تیسرے فریق کی ضرورت ہے، تو وہ فریق صرف برطانیہ ہی ہو سکتا ہے۔ امریکہ کی یہ پالیسی سال 1948 میں بھی کسی نہ کسی طریقے سے قائم رہی ، حالاں کہ اس دوران امریکہ نے سیکیورٹی کونسل کی کاروائی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن آگے چل خطے میں رونما ہونے والے بڑے واقعات نے امریکیوں کو اپنی پالیسی پرنظر ثانی پر مجبورکر دیا۔ ان بڑے واقعات میں چین میں قوم پرستوں کی شکست اور ما و اسٹ انقلاب کا آغاز تھا۔
ان حالات میں امریکا کے محکمہ دفاع نے ایک نئی رپورٹ مرتب کی۔ اس رپورٹ میں انڈیا اور پاکستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ کو بر صغیر میں جس سب سے بڑی حقیقت کا سامنا ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں سے برطانیہ اپنے اختیارات سے دستبردار ہو چکا ہے ۔ لیکن پاکستان اور انڈیا کو مغربی ممالک کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے برطانیہ کے اثرو رسوخ اور اس کے رابطوں کو استعمال کرنا ضروری ہے۔ چناچہ اس رپورٹ میں ایک مشترکہ “اینگلو امریکن” پالیسی کی تشکیل پر زور دیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا یہ امریکہ کے بہترین مفاد میں ہو گا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ برطانیہ اس خطے میں میں اپنے اثرو رسوخ کو کس طرح قائم رکھنا چاہتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ برصغیر کی سیکیورٹی کے لئے برطانیہ کس قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہے۔
برطانیہ کو انڈیا اور پاکستان کے دفاع کی ذمہ داری لینے کی حوصلہ افزائی کرنے کی خواہش کا اظہار ایک میمورنڈم سے ہوتا ہے، جو امریکی جائنٹ چیف آف سٹاف نے پیش کیا۔ اس میمورنڈم میں جائنٹ چیفس آف سٹاف نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ بھارت امریکا کے لیے کوئی خاص اسٹریٹجک اہمیت نہیں رکھتا، لیکن اس ملک کا سویت یونین کے کیمپ میں چلا جانا امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان امریکہ کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے کچھ علاقوں کو سوویت یونین کے خلاف بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کے علاوہ پاکستان خلیج میں تیل کی نگرانی اور تحفظ کے لیے بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔ جائنٹ چیف کو یقین تھاکہ اصل خطرہ برصغیر پر بیرونی حملے سے نہیں، بلکہ اس کے اندرونی حالات سے پیدا ہو سکتا ہے ۔ لیکن کمیونسٹ مداخلت برصغیر میں سیاسی توڑپھوڑ اور عدم استحکام کا آغاز کر سکتی ہے۔ اس لیے امریکی پالیسی کا اصل ہدف ان دونوں ملکوں کی سکیورٹی ہونا چاہیے ۔
اس سلسلے برصغیر میں برطانیہ کے طویل تجربے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے انڈیا اور پاکستان کی فوجی ضروریات کے لئے برطانیہ کے ساتھ مل کر باہمی تعاون کا راستہ تلاش کیا جائے۔ اور امریکہ اس سلسلے میں برطانیہ سے مل کرکام کرے۔ 1949 کے موسم بہار میں برصغیر کے بارے میں یہ امریکہ کی واضح پالیسی تھی، لیکن اسی سال کے آخر میں چین کے حوالے سے امریکہ کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں ۔ چین میں انقلاب کے بعد امریکہ نے ہندوستان کی طرف ایک نئی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ۔
اکتوبر 1949 میں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے امریکا کا دورہ کیا ۔ امریکی اخبارات نے اس دورے کو بہت زیادہ اہمیت دی، اور اپنے ادارتی نوٹس میں لکھا کہ بھارت دنیا کی سیاست میں اہم کرادار ادا کر سکتا ہے۔امریکی اخبارات نے لکھا کہ چین انقلاب کے بعد ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے، لیکن ہندوستان کو نہیں نکلنا چاہیے۔ بھارت کو مغرب کے ساتھ رکھنے کے لیے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل میں دلچسبی ناگزیر ہے۔
♠