تحریر: شنکر رے/ترجمہ: خالد محمود
ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم، دلی طور پر آزادی پسند اور ایک ضروری جمہوری فضیلت تھے۔جواہر لعل کی روح دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں کو اُن کے مسلسل ڈراؤنے خوابوں میں اعصابی شکستگی سے دوچار کئے رکھتی ہے۔اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ’’ سنگھ پریوار‘‘ اپنے طوفانی دستوں کو جن میں ’’ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘‘ جیسی انتہا پسند تنظیم شامل ہے ،کو ہر ایسی جگہ حملہ کرنے پر اکساتی رہتی ہے جو نہرو کے نام سے منسوب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ’’زعفرانی نگہبان‘‘ جواہر لعل نہرو یُونیورسٹی میں حرکت میں آ چکے تھے۔ان مضبوط مسلح کارکنوں کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب راجھستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے سکولوں کی نصابی کتب سے نہرو کا نام حذف کر دیا تھا۔
لیکن زعفرانی نظریے کے پرچار کرنے والوں کی طرف سے یہ انتقامی موقف فطری ہے کیونکہ نہرو نے اپنی سوانح عمری
Towards Freedom
جو انہوں نے 1936 میں احمد آباد جیل میں لکھی تھی، میں واضح طور پر ’’منظم مذہب‘‘ پر تنقید کی تھی۔وہ لکھتے ہیں،’’وہ تماشا جسے مذہب کہتے ہیں کسی بھی قیمت پر بھلے وہ ہندوستان میں ہویا کہیں اور، منظم مذہب نے مجھے وحشت زدہ کرچکا ہے۔میں نے اکثر اس کی مذمت کی ہے اور اس سے جان چھڑانے کی خواہش کی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اندھا یقین اورردِعمل،عقیدہ اورتعصب،توہم پرستی اور استحصال، شخصی مفادات کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں۔ تین سال پہلے انہوں نے گاندھی جی کولکھا تھا کہ مذہب میرے لئے مانوس بنیاد نہیں ہے۔جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا میں مذہب سے دور ہوتا چلا گیا ہوں۔میرے پاس اس کا متبادل کچھ اور ہے جو ذہانت اور عقل سے قدیم ہے اور ہمیشہ مجھے طاقت اور امید بخشتی ہے۔ اس کے باوجود وہ مذہبی رسومات سے اُس وقت تک رواداری برتتے تھے جب تک اس کے پیچھے سیاسی محرکات نہ آجائیں۔
لیکن سنگھ پریوار کے نظریہ سازوں نے ایک خاص وجہ سے نہرو کو اپنا دشمن قرار دیا ہے۔انہوں نے بارہا کہا کہ فاشزم کی ہندوستانی شکل صرف اکثریت کی فرقہ واریت کی وجہ سے آ سکتی ہے۔انہوں نے اپنے اس عقیدے کو کبھی نہیں چھپایا کہ اقلیت کی فرقہ واریت اگرچہ قابل نفرت ہے مگر یہ فاشزم لانے کا امکان نہیں رکھتی ہے۔یہ تفہیم، برصغیر میں فاشزم کو ایک امکان کے طور سمجھنے کے لئے اولین مقدمات میں سے ایک تھی ۔انہوں نے خود کو سرکاری مارکسسٹوں کی اُس تنگ نظرکتابی وضاحت تک محدود نہیں رکھا جو کمیونسٹ انٹرنیشنل کے جنرل سیکرٹری جارجی دیمیتروف کی کہی بات کو دہراتے رہتے تھے کہ ’’ فاشزم مالیاتی سرمائے کی دہشت گرد آمریت ہے‘‘ جو یورپ کی حد تک تو درست تھی مگر برِ صغیر کے لئے نہیں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ نہرو نے فاشزم کو ہندوستان میں ایک مخفی رجحان کی صورت سمجھا تھا جب کہ یورپ وہی تھا جسے رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے گیت ’’دنیا نفرت کے ہذیان کے ساتھ وسیع ہے‘‘ میں لکھا تھا۔
نہرو کے سوانح نگار ساروپلی گوپال نے اپنے انصاری میموریل لیکچر (1988 ) میں کہا ہے کہ مسلمان فرقہ پرست کم از کم اپنے مذہبی نقطہ نظر میں متوسط طبقے کے نمائندہ تھے۔جب کہ ان کے راہنما ہندو مہا سبھا کے اُن لیڈرزکی نسبت زیادہ وقار کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے جو صرف سرمایہ داروں،جاگیرداروں،چند والیان ریاست اور ان کے خوشامدیوں کی نمائندگی کرتے تھے۔نہرو نے اپنا یہ نظریہ برقرار رکھا کہ فرقہ ورانہ جماعتیں سیاسی رد،عمل نے کھڑی کی ہیں۔لیکن آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ یہ فرقہ واریت کسی حد تک ہندوؤں میں موجود ہے جو کسی وقت قوم پرستی کا روپ دھار سکتی ہے۔یہ ہندوستانی فاشزم کا نسخہ تھاجو سخت ترین مذمت کے لائق ہے۔
نہرو انڈین نیشنل کانگریس کے دیگر راہنماؤں کی نسبت ، کئی حوالوں سے مختلف تھا۔وہ واحد راہنما تھا جس نے اپنی خود نوشت میں جدید ریاست کے تصور کی مخالفت کی تھی۔ تشدد جدید ریاست اور سماجی نظام زندگی کادورانِ خون ہے۔انہوں نے مزید کہا ،کہ ریاست کی بنیادی نوعیت طاقت،جبر اور حکمران گروپ کا تشدد ہے۔یہاں نہرو(اور ٹیگور بھی)مارکس کے ساتھ کھڑے تھے جب کہ سرکاری مارکسسٹ ،بلکہ بشمول لینن، سٹالن کا تو ذکر ہی کیا حتی کہ ٹراٹسکی بھی مارکس اور اینگلز کی بات سے منحرف ہو چکے تھے۔
پاریش چٹو پادھیائے ، جوبلا شبہ دُنیا بھر کے بہترین مارکسی دانشوروں میں سے ایک ہیں ،نے حال ہی میں اکنامک اور پولیٹیکل ویکلی میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ بیسویں صدی کا سوشلزم اقلیتی حکمرانی کی دہشت گردی پر مرکوز تھا۔کرانسٹاڈٹر کو چھوڑ دیں جو 1905 کے انقلاب کے ہیرو تھے۔مئی 1918 میں جب لینن اور ٹراٹسکی بالشویک طاقت کے سربراہ تھے ایک لاکھ چھیالس ہزار کارکنوں نے پیٹروگراڈ میں خوراک اور نوکریوں کے مطالبے کے لئے ریلی نکالی تھی۔حکومت نے سرعت سے ردعمل دیا۔ہڑتال کے لئے ہمدردی کی کسی بھی علامت کو مجرمانہ فعل قرار دیا۔ یکم جولائی کو ماسکو اور پیٹروگراڈ کے مرکزی مقامات پر مشین گنیں نصب کر دی گئی تھیں۔پاریش چٹوپادھیائے لکھتے ہیں کہ جلسوں کو زبردستی منتشر کیا گیا اورہڑتال کو روک دیا گیا تھا۔
چٹوپادھیائے نے لکھا کہ روسی سوشلسٹ ڈیموکریٹک لیبر پارٹی(بالشویک) کی نویں کانگریس میں لینن جو کہ بالشیک انقلاب کے مصنف تھے نے بدنام جمہوریت کے خلاف ڈنڈا اٹھایا تھا۔یہ سب مارکس کی تعلیم سے بنیادی انحراف تھا جس نے شخصی آزادی اورآزادی پسند اصولوںکا غیر متزلزل دفاع کیا تھا۔
تاہم، سرپرست کو بھی اپنی سوشلسٹ حامی وابستگی سے ،خاص طور پر وزارتِ عظمیٰ کے ابتدائی سالوں میں پھسلنا پڑا تھا۔1948 میں نہرو نے فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے راہنمائوں کو یقین دلایا کہ اس کی حکومت بڑی صنعتوں کو قومیانے کی خواہش مند نہیں ہے ۔ہمیں سوچنا اور غور کرنا ہے کہ کس چیز کو نیشنلائز کریں اور کس کو نہ کریں(کمل ارن مترا چنائے،دی رائز آف بگ بزنس ان انڈیا صفحہ 126 )۔
اپنی خود نوشت میں اُن کا اپنے متعلق تحقیر آمیز بیان یاد آتا ہے کہ میری سیاست میرے اپنے طبقے بورژوا کی تھی۔تاہم اُس کی موت کے 42 سال بعد بھی ،نہرو کی اہمیت بالخصوص آزادی پسندوں کے لئے ،جو کانگریس اور لیفٹ میں موجود ہیں، کم نہیں ہوئی۔ اپنی ڈائیری میں 17 اپریل 1935 کو لکھا کہ ہم کتنے مکروہ لوگ ہیں؟سیاست،ترقی،سوشلزم،کمیونزم،سائنسوہ اس سیاہ مذہبی وحشت کے سامنے کہاں ہیں؟
♠