پاکستان کی کابینہ نے روایتی حریف ملک بھارت کو پاکستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان تک گندم پہنچانے کی اجازت دے دی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان بھی بھارت کی طرح افغانستان پچاس ہزار میڑک ٹن گندم پہنچائے گا۔پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے، ” افغانستان کے عوام کو فوری مدد کی ضرورت ہے اس لیے پاکستان نے بھارت کو پچاس ہزار ٹن گندم پہنچانے کی اجازت دے دی ہے”۔
واضح رہے کہ پاکستان نے عرصہء دراز سے بھارت کو اپنی سرزمین سے افغانستان کسی بھی طرح کے ساز وسامان پہنچانے کی اجازت نہیں دی۔ پاکستان کی اس حالیہ پیش رفت کے حوالے سے سسٹینیبل انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز کے سربراہ عبدالقیوم سلہری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات کو دور رکھتے ہوئے علاقائی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، بھارت اور پاکستان کے مابین سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس وقت افغان عوام کو مدد کی ضرروت ہے۔”
پاکستانی صحافی اویس توحید نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،” پاکستانی حکومت کی جانب سےت بھارت کو افغانستان امداد اشیاء پہنچانے کی اجازت دینا ایک مثبت قدم ہے۔افغان عوام بھوک کا شکار ہیں، افغان طالبان کی امداد کی درخواست کو دنیا نظرانداز کر رہی ہے ایسے میں پاکستان مسلسل یہ آواز اٹھا رہا کہ عالمی برادری طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کرے اور افغان عوام کو مدد پہنچائے۔ تو بھارت کو پاکستان کی سرحد استعمال کرنے کی اجازت دینا پاکستان کے اسی موقف کی تائید کرتا ہے”۔
عبدالقیوم سلہری کے مطابق عالمی برادری کو افغانستان کے حوالے سے کوئی غیر معمولی فیصلہ کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے،” افغان عوام کی مدد ان کی قیادت کو تسلیم کیے بغیر بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا ہے اور دنیا انہیں پسند نہیں کرتی تو اس میں افغان عوام کا کیا قصور ہے؟”
لیکن کیا اس فیصلے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کچھ بہتری آئے گی۔ اس حوالے سے اویس توحید کہتے ہیں کہ ایسا نہیں لگتا کہ ان ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کم ہوگی۔ ”پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے اب طویل عرصہ درکار ہو گا۔ کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک لچک کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کابل کو قریب پانچ ارب روپے کی امداد فراہم کرے گا، اس کے علاوہ طبی امداد، خوراک وغیرہ بھی پاکستان کی جانب سے افغانستان پہنچائی جائے گی۔
dw.com/urdu