بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان کے بڑے معاشی اور سماجی مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں لوگ عموماً اپنے اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق کسی بڑی شخصیت کا نام لے لیتے ہیں۔ لیکن اگر شخصیات سے ہٹ کر اگر ان مسائل کا ذمہ دار کسی نظام کو ٹھہرایا جا سکتا ہے، تو وہ “نیو لبرل ازم” ہے۔
مگر اگر پاکستان کے عوام سے پوچھا جائے کہ نیو لبرل ازم کیا ہے ؟ تو شاید ان کی اکثریت نے کبھی زندگی میں یہ لفظ سنا ہی نہ ہو۔ اگر سنا بھی ہو تو وہ یقین سے نہیں بتا سکیں گے کہ یہ کیا چیز ہے، اور ان کی زندگی کے مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے۔ یہ عام لوگوں میں سیاسی و سماجی علم و شعور کی کمی کا اظہار ہے۔ اس بات کے لیے بھی کسی ثبوت کی چنداں ضرورت نہیں کہ جس ملک میں جتنی زیادہ علم و شعور کی کمی ہو گی، وہ ملک اتنا ہی زیادہ پسماندہ ہوگا۔ اس کے معاشی اور سماجی مسائل اتنے ہی گہرے اور گھمبیر ہوں گے۔
یہ کوئی ایک دو ملکوں کی بات نہیں، بلکہ غربت اور جہالت کا جو پرانا اور چولی دامن کا ساتھ ہے، اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ تاریخ میں جہاں کئی بھی معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ معاشرے میں کوئی تبدیلی اور انقلاب آیا، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ وہاں کے رہنماؤں نے سب سے پہلے عوام کو علم و شعور کے ہتھیاروں سے مسلح کیا۔ اس علم و شعور کی بنیاد پر ان کو کسی ایسی انقلابی تحریک یا سیاسی پارٹی سے جوڑا، جو ان کے معاشی و سماجی مسائل سے واقف تھی، اور ان کے خاتمے کے لیے ایک واضح پروگرام رکھتی تھی۔ عوام کو اس پروگرام کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ پارٹی لیڈرشپ کے تحت عوام کی سیاسی تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔
اس بندوبست کے تحت ان کو سمجھایا گیا کہ ان کے اصل مسائل کیا ہیں۔ ان کی غربت اور پسماندگی کے اسباب کیا ہیں، اور ان سے چھٹکارے کا طریقہ کیا ہے۔ اس طرح عوام شعوری طور پر کسی پارٹی یا تحریک کے پرچم تلے جمع ہو کر اس کے منشور کی روشنی میں سماج میں تبدیلی کے لیے منظم ہوئے۔ اور اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد پارٹی یا تحریک میں اپنا کردار ادا کیا۔
دنیا میں اس عمل کے بغیر نہ تو صحیح معنوں میں کوئی انقلاب برپا ہوا، اور نہ ہی عوام کی زندگیوں میں کوئی قابل ذکر تبدیلی آئی۔ لیکن پاکستان کا مقدمہ تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں تبدیلی کی تحریکیں تو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ پارٹیوں کا یہ عالم ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی پارٹیاں کم اور لمیٹیڈ کمپنیاں زیادہ بن چکی ہیں۔ یا پھر جدید قبائل کی شکل اختیار کر چکی ہیں، جن کو موروثی مفادات کے آئینے میں کمرشل بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ عوام کے آگے جواب دہی سے انکار، تاحیات پارٹی صدارت ، اس صدارت کی نسل در نسل منتقلی، ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل اس کی ادنی مثالیں ہیں۔ ان حالات میں عوام کی تعلیم و تربیت تو کیا خود پارٹی لیڈر مطلوبہ سیاسی علم و شعور نہیں رکھتے، جو ایک سیاسی لیڈر کے لیے لازم ہے۔
میں نے اوپر نیو لبرل ازم کی مثال دی تھی۔ جو ہمارے دور کا اہم ترین معاشی و سیاس نظریہ ہے۔ اس باب میں عوام کو ایک طرف رکھیے۔ صرف ان لوگوں کو ہی لیجئے جو صرف ہائی سکول یا کالج سے فارغ التحصیل نہیں، بلکہ ان کے پا س یونیورسٹی ڈگریاں ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ نیو لبرل ازم کیا ہے، تو جو جوابات سننے کو ملتے ہیں، وہ دماغ چکرا دینے والے ہوتے ہیں۔ ایک مقبول عام جواب یہ ہوگا کہ نیو لبرل ازم بے راہ روی اور گمراہی کا نظام ہے۔ یہ سوال لے کر کچھ اور آگے بڑھیں تو کوئی اسے فحاشی اور عریانی کا نظام قرار دے گا۔ کوئی اسے کفر الحاد سے جوڑے گا۔ کوئی آپ سے الٹا یہ سوال کرے گا کہ نیو لبرال ازم پر بات کرنے سے پہلے یہ تو بتائیں کہ لبرل ازم کیا ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب جوابات غلط اور گمراہ کن ہیں۔ ان جوابات کا لبرل ازم اور اس کے تصورات سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے۔ لیکن یہ تمام جوابات اس تلخ حقیقت کا عکاس ہیں کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم کس قدر فرسودگی اور زوال کا شکار ہے۔ یونیورسٹی گریجویٹ کا مطالعہ اور علم کس قدر محدود ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے اہم ترین موضوعات پر ان کا علم کتنے گمراہ کن تصورات اور فرسودہ تعصبات پر مشتمل ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایک نیا اور حیران کن موڑ ہے۔ اگر ہمارے یونیورسٹی گریجویٹس کو نیو لبرل ازم کے بارے میں کوئی پتہ نہیں جو ہمارے دور کا مروجہ نظام ہے، تو زندگی کے دیگر معاشی و سماجی نظاموں کے بارے میں ان کی معلومات کیا ہوں گی۔ اور وہ زندگی کو در پیش معاشی و سماجی مسائل پر کیا نقطہ نظر رکھتے ہوں گے۔
ہماری موجودہ اور حالیہ زندگی کے جتنے بڑے مسائل ہیں، ان کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے جا کر نیو لبرل ازم سے ملتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال2007-08 کا عالمی معاشی بحران ہے۔ جب نیو لبرل ازم کی ناکامی سے دنیا کا معاشی نظام ہل کر رہ گیا تھا۔ دولت کی دوسرے ممالک میں منتقلی ہمارے دور کا ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی ایک مثال ہمارے ہاں پانامہ پیپرز کی شکل میں سامنے آئی تھی، اور ابھی حال ہی میں اس کی ایک اورجھلک پینڈورا پیپرز میں بھی دکھائی دی تھی، جن پر آج کل پر اسرار خاموشی کا پردہ ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں صحت و تعلیم کے شعبوں میں ایک بحرانی کیفیت ہے، جس کا زیادہ واضح اظہار کورونا بحران کے دوران ہوا، مگر حقیقت میں یہ بحران بہت پہلے کھل کر سامنے آگیا تھا۔ دنیا میں بچوں کی غربت کا مسئلہ دن بدن شدت اختیار کرتا جا ریا ہے۔ اور یہ صرف غریب اور پسماندہ ممالک میں ہی نہیں ہو رہا، بلکہ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں بھی یہ مسئلہ خوفناک شکل میں بڑھ رہا ہے۔ اس طرح دنیا میں ماحولیاتی تباہی میں شدت بھی ایک بڑا گھمبیر مسئلہ ہے ،جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک تباہ کن شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ دنیا میں نفرت اور نسلی امتیاز پر مبنی شدت پسند سیاست کے رجحانات اور مقبولیت میں اضافہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے، جس کا سامنا غریب اور امیر ممالک کے عوام کو یکساں طور پر در پیش ہے۔ ہم دنیا میں ان مسائل کو الگ الگ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لین اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سب مسائل آپس میں کئی نہ کئی جڑے ہیں، اور ان کا تعلق بالآخر جا کر نیو لبرل ازم کے فلسفے سے جڑتا ہے۔ لیکن ہم اس کو بطور فلسفہ سمجھنے اور تسلیم کرنے انکاری ہیں۔ نیو لبرل ازم کے بارے میں غریب عوام کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی غربت، بے روز گاری، مہنگائی اور طبقاتی لوٹ گھسوٹ کا تعلق نیو لبرل ازم سے ہے۔ لبرل ازم کی وجہ سے عوام صرف معاشی مسائل کا شکار نہیں۔ ان کے بے شمار سماجی اور نفسیاتی مسائل کا تعلق بھی اسی نظام سے بنتا ہے۔ مغربی سماج میں ڈی پریشن، سوشل فو بیا، خود کشیاں، تنہائی اور بے سکونی جیسے مسائل اسی نظام کا دین ہیں۔
♥