واشنگٹن سے واجد علی سید
آنے والے چند ہفتوں میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نیا موڑ لینے جا رہے ہیں جو مستقبل میں دو طرفہ اور سہ جہتی مفادات کا تعین کریں گے۔ بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے فورا بعد پاکستانی سفارتی و ریاستی حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ امریکہ کی پاکستان سے ناراضی صرف افغانستان کے حالات تک محدود نہیں ہو گی بلکہ پاک چین تعلقات کی وجہ سے مزید متاثر ہو سکتے ہیں۔
اسی خدشے کی وجہ سے پاکستانی حکومت کی لگاتار کوشش رہی کہ امریکہ کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے بارے پائی جانے والی بے چینی کا تسلی بخش جواب فراہم کیا جائے۔ پاک امریکہ تعلقات میں آنے والی تبدیلیوں کا سب سے برا اشارہ یہی ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے نئے سفیر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منظرکچھ ایسا بنتا دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے موجودہ سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کو ان کی مدت میں توسیع کے بجائے اور ان کی سینیارٹی کو مدنظر رکھتے انہیں یورپین یونین یعنی برسلز بھیجا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر اسد مجید کیرئیر ڈپلومیٹ ہیں اور عین ممکن ہے کہ اگلے دو برسوں میں وہ فارن سیکیرٹری بننے کی دوڑ میں شامل ہوں۔ ان امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر کے لئے کسی کم تجربہ کار اور نا شناسا چہرے کے بجائے منجھے ہوئے اور تجربہ کار سفارت کار سردار مسعود خان کو تعینات کرنے کا فیصلہ احسن ہے۔
سردار مسعود کے بارے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ وہ آزاد کشمیر کے صدر بننے سے پہلے نہ صرف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں بلکہ امور چین کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے چین میں بطور سفیر خدمات انجام دیں اور چینی زبان پر مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے لئے پاکستان اور چین کے تعلقات کے علاوہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر ریاستی نکتہ نظر کی ترویج دشوار نہیں ہو گی۔
دوسری طرف امریکہ نے بھی کم از کم چار برس کے بعد پاکستان میں اپنا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اقدام اس حوالے سے نہایت اہم ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کسی حد تک یا یوں کہیئے کہ سفارتی حد تک ختم ہو گی۔ افغانستان سے امریکی انخلاٗ کے بعد، اور امریکہ ایران تعلقات کی موجودہ صورتحال میں پاکستان میں امریکی سفیر ایک نہایت غیر معمولی پوسٹنگ ہو گی۔
امریکہ نے اس کے لئے ڈونلڈ بلوم کا انتخاب کیا ہے جنہیں امریکی سینیٹ سے منظوری کے بعد اسلام آباد بھیجا جائے گاْ۔ ڈونلڈ بلوم افغانستان میں کام کر چکے ہیں اور مشرق وسطی کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ تیونس سے پہلے وہ یروشلم میں بھی کونسل جنرل رہ چکے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعے کے علاوہ سعودی ایران معاملات بھی ان کے وسیع تجربے کا حصہ ہیں۔ بلوم اسلامی شدت پسند گروہوں اور تنظیموں کے طریقہ اور ان کے نظریات کو جانچنے کی صلاھیت بھی رکھتے ہیں۔ واقفان حال سمجھتے ہیں کہ اگر مستقبل میں کسی مقام پر پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کسی قسم کی پیش رفت ہوئی تو ڈونلڈ بلوم ہی اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ان دو تجربہ کار سفارت کاروں کا ایک دوسرے کے ملک میں تعیناتی اور خدمات پاکستان اور امریکہ کو بہرحال سفارتی لحاظ سے قریب لائے گے جس کے ثمرات میں دوطرفہ تعلقات میں کسی حد تک بہتری، پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر افغان عوام کی بہتری کے لئے تجارتی زون، جس کے لئے ایک بل امریکی کانگریس میں پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے اور اسے منظوری کے بعد لاگو کیا جائے گا۔
پاکستان سے یہ بھی توقع کی جائے گی کہ خطے اور بالخصوص افغانستان میں میں موجود شدت پسند تنظیموں کی کارووائیوں پر نظر رکھنے کے لئے فضائی راہ داری کی سہولت مہیا کی جائے اور اس بارے بھی انتظامیہ کے سینئیر اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد سے گفتگو جاری ہے۔ شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں پر امریکہ اور چین کے مابین اشتراکیت کا امکان موجود ہے۔
♠