بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ کراچی میں آٹھ دسمبر کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خوش امیدی کے اظہار کے بعد جب صدر آئزن ہاور بھارت کے لیے روانہ ہوئے تو پاکستان میں اس حوالے سے رجائیت پسندی اپنے عروج پر تھی۔ مگر صد آئزن ہاور جب دلی پہنچے تو وہاں کا ماحول دیکھ کر لگتا تھا کہ امریکہ بھارت کا دنیا میں سب سے قریب ترین اتحادی ہے۔ امریکی صدر کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ ائیر پورٹ سے لیکر راشٹراپتی بھاون تک بارہ میل لمبا جلوس نکالا گیا۔ یہ ایک غیر معمولی استقبال تھا، جس نے امریکی اور مغربی ابلاغ کی بھارت کی غیر جانب داری اور کمیونزم کی طرف جھکاو کے بارے میں روایتی رائے بدل کر رکھ دی۔
بھارت میں واقع امریکی سفارت خانے کی رپورٹ کے مطابق صدر آئزن ہاور کا استقبال 1955 میں خروشیف کے استقبال سے بڑا تھا۔ ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ آزادی کے گیارہ سالوں میں پہلی بار بھارتی عوام نے امریکی خیالات وجذبات کا جواب دیا ہے۔ صدر آئزن ہاور نے رام لیلا میدان میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کیا۔ پارلیمنٹ میں گرم جوشی کا حال بتاتے ہوئے بلجئیم کے اخبار” لو سواغ “نے لکھا کہ جب صدر نے پارلیمنٹ میں عالمی امن کے قیام کے لیے امریکہ اور بھارت کے مشترکہ سرگرمی کی بات کی تو ان کو تالیوں کی گونج میں ایسی داد دی گئی، جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سان فرانسسکو کرانیکل نے صدر آئزن ہاور کے دورے کو چینی خطرے سے جوڑتے ہوئے لکھا کہ غیر جانب دار انڈیا راتوں رات چین کے خطرے کے پیش نظر مغرب پرست اور امریکی نواز بن گیا ہے۔
دوسرے کئی اخبارات نے لکھا کہ نہرو اب چین کے خلاف قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ اور صد آئزن ہاور کا دورہ ایک “سوشل کال” کے بجائے جنگ کی حکمت عملی کا سیشن بن گیا ہے۔ بھارت سے اتنے جلدی غیر جانب داری کی پالیسی ترک کرنے کی توقع رکھنا شاید حقیقت پسندی نہ ہو، لیکن پنڈت نہرو نے حال ہی میں اپنے سفیروں کو جو ذاتی میمورنڈم ارسال کیا ہے، وہ یہ بتاتا ہے کہ وہ اب اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں کہ چین نے جن ہندوستانی علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے ، ان کی واپسی کے لیے لڑائی کے سوا چارہ نہیں ہے۔
اس طرح بظاہر صدر آئزن ہاور کے دورے کے دوران عالمی پریس میں پاکستان بھارت کے بجائے، بھارت چین تنازعہ اور اس سے جڑے جنگ کے خدشات توجہ کا مرکز بنے رہے ، لیکن اس کے باوجود جب صد رآئزن ہاور اور پنڈت نہرو کی ملاقات ہوئی تو اس میں پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر سر فہرست رہے۔ صدر تازہ تازہ جنرل ایوب سمیت پاکستان کی چوٹی کی لیڈر شپ سے تبادلہ خیال کر کہ آئے تھے، اور پنڈت نہرو کے ساتھ اس موضوع پر تبادلہ خیالات کی یاداشتیں بھی تازہ تھیں، چنانچہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر کھل کر گفتگو کی۔ کراچی سے روانگی سے پہلے آئزن ہاور کو پاکستان کا کھلا ہمدرد اور اتحادی سمجھا جاتا تھا، جو پاکستان کو مختلف اتحادوں میں شمال کرنے کے علاوہ مالی اور فوجی امداد بھی فراہم کر رہا تھا، لیکن اس تاثر کا بھارتی رائے عامہ پر اثر نہیں دکھائی دیا۔ اس کے دورے کے دوران ہر روز بھارتی عوام کے استقبال اور گرم جوشی میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ آئزن ہاور کو الوداع کہنے کےلیے ایک ملین سے زائد بھارتی جمع ہوئے۔ نہرو نے کہا کہ یہ رام لیلا پارک میں سب سے بڑا اجتماع تھا، جو انہوں نے اپنی زندگی میں دیکھا۔ اور دوسری طرف یہ بھی سمجھا گیا کہ یہ آئزن ہاور کی زندگی کا سب سے بڑا مجمع تھا، جس کا انہوں نے زندگی میں سامنا کیا۔
واشنگٹن پہنچنے کے بعد آئزن ہاور کی دلچسپی مسئلہ کشمیر، پاکستان ، بھارت اور چین جیسے معاملات پر ہی مرکوز رہی۔ بھارت کے دورے کے دوران پنڈت جواہر لال نہرو اور صدر آئزن ہاور کے درمیان کن معاملات پر تفصیلی مذاکرات ہوئے، اس کی ایک جھلک تئیس دسمبر1969کے ایک ٹیلی گرام سے ہوتی ہے، جو کراچی کے امریکی سفارت خانے نے سٹیٹ دڈپپارٹمنٹ کو لکھی۔
امریکی سفیر نے لکھا کہ میں 22 دسمبر کو صدر ایوب سے ملا۔ میں نے ان کو بتایا کہ صدر آئزن ہاور اپنے دورے کے بعد پاکستان بھارت کے تعلقات کے حوالے سے کافی پر امید ہیں۔ خصوصا وہ یہ بات یقینی بنانا چاہیں گے کہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے بجائے اپنی طاقت کا استعمال آزاد دنیا ” کے وسیع مفاد میں کریں۔ ان فوجوں کا ایک دوسرے کے خلاف استعمال ان کے کمیو نزم کے خلاف کردار کو محدود کرتا ہے۔ اس سلسلے میں صدر آئزن ہاور جو بھی مدد کر سکتے ہیں وہ کرنے کے لیے تیار ہیں ، لیکن وہ یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں، کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ثالث کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ البتہ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا پاکستان اور بھارت کوئی ایسا مشترکہ بیان جاری کر سکتے ہیں، جس میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام موجودہ اور مستقبل کے مسائل کو باہمی گفتگو سے حل کیا جا سکے۔ اور اس سلسلے میں جنگ اور طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے گا۔
امریکی سفیر لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے میری معروضات کو پوری توجہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ بیان کی تجویز نئی نہیں ہے ، بلکہ یہ پنڈت نہرو کی طرف سے ” نو وار ڈیکلریشن “کی شکل میں کئی بار پیش کی جا چکی ہے۔ اس تجویز کے ذریعے جو کچھ نہرو حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ انہوں کے پاس کشمیر کے جو حصے ہیں، وہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر ہی ان کے پاس رہیں ، اوروہ اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے بے فکر ہوں کہ وہ کسی قسم کا اقدام نہیں کرے گا۔ ایوب خان نے کہا کہ ان کا بھارت سے جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، لیکن نہرو کی تجویز سےان کے عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔ دیگر ضروری اقدامات کیے بغیر اس طرح کا جنگ نہ کرنے کے اعلان کا مطلب عوام میں یہ لیا جائے گا کہ پاکستان نے کشمیر” سلورپلیٹ” میں رکھ کر بھارت کو پیش کر دی۔
ایک طرف تو ایوب خان نے نو وار ڈیکلئیریشن کو رد نہیں کیا، لیکن ان کے خیال میں درست طریقہ یہ تھا کہ اس سے پہلے پنڈت نہرو صدر آئزن ہاور یا ان کے نمائندے کے ساتھ مل کر کشمیر کے حل کے اصول طے کریں۔ ایوب خان کے خیال میں مسئلہ کشمیر کا حل یا اس کے حل کے اصول پر اتفاق کے بغیر نو وار ڈیکلئیرشن خطرناک ہے، جو ان کی حکومت کو لے کر ڈوب سکتا ہے۔ پاکستان سے بھارت روانہ ہونے سے پہلے صدر آئزن ہاور کے سامنے ایوب خان کی پاکستان اور بھارت کے درمیان ” جوائینٹ ڈیفنس” کی تجویز اور پنڈت نہرو کا ” نو وار ڈیکلریشن ” کا فارمولہ دونوں ٹیبل پر تھے۔ لیکن بھارت کے دورے کے بعد انہوں نے ایوب خان کا جوائنٹ ڈیفنس کا فارمولہ ٹیبل سے اٹھا دیا۔ بھارت کے دورے کے دوران انہوں نے دوسرا فیصلہ یہ کیا کہ اپنی ثالثی کی پیشکش واپس لے لی، جو انہوں اپنے مشہور خط کے ذریعے پنڈت نہرو کو پیش کی تھی، اور نہرو نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
اس طرح پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مغربی سفارتی محاذ پر زبردست کامیابیوں کے بعد واپس نقطہ آغاز پر پہنچ گیا۔ امریکی صدر کے دورہ پاکستان اور بھارت کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا اس کا احوال آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔
♣