مودی جی کا گھمنڈ کیسے ٹوٹا،معاملہ اتر پردیشن کے چناؤ کا ہے


ظفر آغا

الغرض کسانوں نے نریندر مودی کا گھمنڈ ہی نہیں، ان کی سیاسی گرفت بھی ڈھیلی کر دی۔ مگر مودی جی وہ سیاستداں نہیں جو آسانی سے ہار مان جائیں۔ اس لیے دیکھیے کہ یوپی چناؤ آگے کیا گل کھلاتے ہیں!۔

کسانوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا گھمنڈ توڑ دیا اور یہی کسانوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ کیونکہ اپنی عوامی زندگی میں پچھلے تیس برسوں میں نریندر مودی کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں لیکن زرعی قانون واپس لے کر انھوں نے کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوری نظام میں لیڈر کتنا ہی بلند و بالا ہو لیکن وہ کبھی بھی عوام سے بلند نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے کسانوں کی فتح ہندوستانی جمہوریت کی فتح ہے۔ اور یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ نریندر مودی کوئی ایسے لیڈر نہیں کہ جن کو شکست دی ہی نہیں جا سکتی ہے۔

ارے اگر ہندوستانی عوام اندرا گاندھی جیسی بلند و بالا لیڈر کو چناؤ ہرا سکتی ہے تو پھر نریندر مودی کیا ہیں! خیر نریندر مودی جھک گئے اور انھوں نے کسانوں کے آگے جھک کر وہ تین زرعی قانون واپس لے لیے جو ان کو اتنے عزیز تھے کہ پچھلے ایک سال میں تمام تر احتجاج کے باوجود وہ ان قوانین کو واپس لینے کو تیار نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ قدم انھوں نے کسی سیاسی مجبوری کے تحت خون کا گھونٹ پی کر ہی اٹھایا ہوگا۔ تو اب سوال یہ ہے کہ نریندر مودی کے لیے ایسی کون سی مجبوری تھی کہ انھوں نے اپنی انا قربان کر کسانوں کے آگے گھٹنے ٹیکے!۔

گودی میڈیا اور مودی حامیوں میں یہ شور ہے کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا ہے کہ وہ اس عمل سے کانگریس کا پنجاب میں خاتمہ کر دیں گے۔ ظاہری طور پر یہ بات اپیل بھی کرتی ہے۔ کیونکہ پنجاب میں وہاں کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امرندر سنگھ کانگریس چھوڑ کر اپنی پارٹی بنا چکے ہیں۔ وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر تین ماہ بعد ہونے والے اسمبلی چناؤ لڑنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ امرندر سنگھ کی شرط یہی تھی کہ بی جے پی پہلے زرعی قانون واپس لے لے۔ مودی نے وہ تینوں قانون واپس لے لیے ہیں، اب پنجاب میں امرندر اور بی جے پی کے چناوی اتحاد کے لیے زمین تیار ہے۔ اس طرح بی جے پی کے مطابق پنجاب میں اس کی چناوی فتح کے راستے کھل گئے اور کانگریس کے زوال کی شروعات ہو گئی۔ لیکن صاحب، بھلا چھوٹی سی ریاست پنجاب جہاں سے صرف 13 لوک سبھا ممبران چن کر آتے ہیں، اس کے لیے نریندر مودی اپنی انا قربان کر سکتے ہیں! ہرگز نہیں۔

جناب معاملہ کچھ اور ہے۔ یقیناً بات پنجاب سے کہیں بڑی ہے۔ دراصل معاملہ پنجاب کا نہیں، اتر پردیش کا ہے۔ اتر پردیش میں بھی اگلے سال مارچ یعنی کوئی تین ماہ بعد چناؤ ہونے ہیں۔ وہاں سے جو خبریں اور سیاسی اشارے مل رہے ہیں، وہ بی جے پی کے لیے تشفی بخش نہیں ہیں۔ آثار تو یہ ہیں کہ بی جے پی نریندر مودی سمیت یوپی چناؤ سے گھبرائی ہوئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہاں کے وزیر اعلیٰ یوگی آدیتہ ناتھ خود ہیں۔ یوگی دراصل اتر پردیش میں اس قدر غیر مقبول ہیں کہ خبروں کے مطابق خود مودی ان کو چناؤ سے پہلے ہٹانا چاہتے تھے۔ لیکن آر ایس ایس اس کے لیے راضی نہیں ہوئی اور اب مودی کو یوگی کا بوجھ ڈھونا پڑ رہا ہے اور بوجھ بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں یوگی کے دورِ حکومت میں یوپی میں ڈنڈا راج چلا ہے۔ کسی نے حکومت کے خلاف منھ کھولا اور بس وہ جیل گیا۔ ادنیٰ سے صحافی سے لے کر سول سوسائٹی کے ممبران تک سب جیل میں ٹھونس دیے گئے۔ یو پی میں یوگی کی وحشت طاری ہے اور عوام اب اس وحشت سے نجات پانے کو کسمسا رہے ہیں۔ پھر یوگی نظام اتنا ناکارہ تھا کہ لاکھوں لوگ یوپی میں کورونا وائرس کی دوسری لہر میں مر گئے اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ الغرض یوگی اب عوام کے لیے ہی نہیں، بی جے پی کے لیے بھی بوجھ بن چکے ہیں۔

اس بگڑی ہوئی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے اب چناوی میدان میں خود نریندر مودی نے قدم رکھا ہے۔ یعنی اتر پردیش چناؤ کی کمان مودی نے خود اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مودی جی یوپی کی عوام کو یوگی جی کی کارستانیاں بھلانے میں کامیاب ہو جائیں گے! بات ذرا مشکل ہے، کیونکہ مودی جی بھی اب وہ مودی نہیں رہے کہ وہ جو کہیں عوام ان کی باتوں پر آنکھیں موند کر یقین کر لیں۔ یوپی سمیت پورے ملک میں اس وقت مہنگائی کی مار ہے۔ پٹرول کی آسمان کو چھوتی قیمت نے ہر کس و ناکس کو پریشان کر دیا ہے۔ پھر یوپی کے کسان مودی جی کے گھٹنے ٹیکنے کے باوجود ابھی تک دھرنے پر ہیں۔ پھر ابھی چند ماہ قبل مودی جی ہزاروں کروڑ خرچ کرنے کے بعد بھی بنگال کا چناؤ ہار چکے ہیں۔ یعنی اب مودی جی وہ کھرا سونا نہیں رہے جو ہر چناوی میدان میں چل جائے۔

مودی کی عوامی مقبولیت گھٹ چکی ہے، مودی کے نام پر یوپی کا چناؤ نکل ہی جائے کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ مودی جی خود گھبرائے گھبرائے سے نظر آ رہے ہیں۔ ابھی یوپی چناؤ کو تین ماہ سے زیادہ مدت باقی ہے لیکن ان دنوں جب دیکھو مودی جی اتر پردیش کے دورے پر رہتے ہیں۔ آج کل وہ دہلی میں کم اور لکھنؤ میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ مودی جی اکثر راتیں بھی یوپی میں گزار رہے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ خود نریندر مودی کو یو پی چناؤ میں بی جے پی کی کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ اس لیے گھبرائے ہوئے نریندر مودی نے کسانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔

اصل میں مغربی اتر پردیش میں کسان تحریک کا گہرا اثر ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پچھلی بار بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اتفاقاً اس علاقہ میں صوبہ کی مسلم آبادی کا تناسب بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس علاقے میں اگر وہاں کی جاٹ و مسلم آبادی ساتھ آ جائے تو پھر بی جے پی کے لیے چناؤ جیتنا مشکل ہو جائے گا۔ اور کسان تحریک نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا ہے۔ پھر اتر پردیش کے دوسرے علاقوں میں کسان گائے سے پریشان ہے۔ یوپی میں گائے کاٹنے پر پابندی ہے اس لیے پچھلے پانچ سالوں میں ایک ایک گاؤں میں آوارہ گائیں کھیتوں میں گھس کر راتوں رات پوری کی پوری فصل تباہ کر دیتی ہیں اور کسان منھ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ یوپی کی 70 فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح کھیتی سے جڑی ہے، اور وہ بی جے پی سے ناراض ہے۔

ان حالات میں یوگی تو یوگی، مودی کو بھی اتر پردیش چناؤ کے نام سے پسینے آ رہے ہیں۔ تب ہی تو مودی جی بھاگ بھاگ کر روز اتر پردیش جا رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اگر یوپی گیا تو ہندوستان گیا۔ اتر پردیش لوک سبھا میں 80 سیٹیں دیتا ہے۔ پھر یوپی چناؤ کے بارے میں مودی کی ساکھ ٹوٹ جائے گی اور سارے ملک میں بی جے پی مخالف ہوا چل سکتی ہے۔ ان تمام سیاسی عوامل نے وزیر اعظم کو اس قدر بے چین کر دیا کہ گھبرا کر انھوں نے کسانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے لیکن بات کچھ بنتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ کسانوں نے ابھی تک اپنی تحریک واپس نہیں لی ہے۔ اب وہ فصلوں کی سرکاری قیمت طے کرنے کے لیے حکومت پر قانون بنانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اور مودی جی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کریں تو کریں کیا۔

الغرض کسانوں نے نریندر مودی کا گھمنڈ ہی نہیں، ان کی سیاسی گرفت بھی ڈھیلی کر دی۔ مگر مودی جی وہ سیاستداں نہیں جو آسانی سے ہار مان جائیں۔ اس لیے دیکھیے کہ یوپی چناؤ آگے کیا گل کھلاتے ہیں! لیکن یہ طے ہے کہ فی الحال یوپی میں بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے اور اسی سے نریندر مودی گھبرائے ہوئے ہیں۔

روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی

Comments are closed.