تحریروتحقیق: پائندخان خروٹی
دنیا کے کسی بھی طبقاتی معاشرہ میں عوام کو اپنے حقوق واختیارات کے مطالبے سے توجہ ہٹانے کیلئے غیرمحسوس انداز میں انھیں غیرضروری سرگرمیوں میں ملوث کرنا بالادست کا وطیرہ رہا ہے۔ بورژوا کے اقتدار اور منافع کو برقرار رکھنے کی خاطر محکوم اقوام اور محروم طبقات کی آواز خاص کر فلسفہ و سیاست کے میدان میں اٹھنے والی پرولتاری آوازوں کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ درباری لقمہ کو عوام کے حلق سے اُتارنے کیلئے مروج اور مذہبی اخلاقیات کا تڑکا بھی لگایا جاتا ہے۔
معاشرے کی محکوم اور مغلوب اکثریت کی ترجمانی کرنے والے عوامی قائدین، خلقی دانشور اور نڈر محققین کو وقت کے درباری نصاب و تاریخ میں جگہ نہیں دی جاتی اور اس کے برعکس جن کو جگہ دی جاتی ہیں وہ پھر مفاد خلق کے حقیقی محافظ نہیں ہوتے۔ عوامی ہیروز درباری اہل فکر وقلم کے ذریعے معتوب کیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ظلم، جبر اور استحصال کی چکی میں پیسنے والے عوام دھیرے دھیرے صنوبریت اور حسینیت پر قائم رہنے والے قائدین کے جھنڈے تلے منظم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
خلقی قائدین کی فکری رہنمائی لوگوں کے ہجوم کو تنظیم کی شکل دینے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ادب یا ادبی تحریک کا بنیادی محرک کیا ہے؟ کس طرح کوئی تحریک عوام میں پائی جانے والی یک رنگی، بیگانگی اور فکری پسماندگی کے خاتمے کیلئے نئی راہیں متعین کرتی ہے؟ اس سلسلے میں اطلاق سے پہلے ادراک حاصل کرنا ضروری ہے کہ ’ ہر عہد کا سوال نیا ہوتا ہے اور یہ اس چپو کی طرح ہے جو سمندر کی ساکن سطح پر تلاطم پیدا کرتا ہے اور گدلے پانیوں کو پیچھے چھوڑ کر کھلے شفاف پانیوں کی راہ دکھاتا ہے‘ (1)۔
عوامی اُبھار کو عوام ہی کے تحفظ کیلئے بروئے کار لانے اور فکری اٹھان کو تنظیمی شکل دینے کے حوالے سے برصغیرپاک وہند کی تحریک آزادی کے صف اول کے ہیرو کاکاجی صنوبر حسین مومند کا نام طبقاتی سیاست، انقلابی ادب اور صحافت میں جاننا پہچانا ہے لیکن یہ امر افسوسناک ہے کہ آج تک صنوبر کاکاجی کی تخلیقی کاوشوں، تنقیدی بصیرت اور منفرد سیاسی فکر کا درست تعین نہیں کیا جاسکا۔ تقسیم ہند سے قبل علم وسياست کے میدان میں بالادست طبقہ کی بالادستی نے کبھی بھی حقیقی عوامی سوچ و اپروچ کو اُجاگر نہیں ہونے دیا۔
صنوبر کاکاجی کی امتیازی خاصیت یہی ہے کہ وہ بیک وقت استعمار اور استثمار دونوں کے مخالف تھے۔ وہ بیرونی آقاؤں کے خلاف مسلح جدوجہد میں بھی سرگرم تھے اور ساتھ اندرونی گماشتہ اشرافیہ پر بھی تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ متحدہ ہندوستان اور پشتونخوا وطن پر برطانوی سامراج کے قبضے کے دوران بھی کاکاجی صنوبرحسین مومند بیک وقت مارکسی نظریات اور قومی آزادی کی جدوجہد کے نہ صرف پرزور حامی تھے بلکہ محکوم اقوام کی قومی آزادی کا پرچم نہ اٹھانے والوں کو مارکسسٹ ماننے کیلئے تیار نہ تھے اور اسی کے ساتھ وہ ترقی پسند نظریات کو نہ اپنانے والے قوم پرستوں کو حقیقی قوم پرست نہیں مانتے تھے۔ سرخ جھنڈے کے نام پر سرخ جھنڈے کی مخالفت کرنے والے خلائی لیفٹ سے بہت فاصلے پر رہتے تھے۔ صنوبر کاکاجی کی یہی سائنٹفک اور متوازن سوچ و اپروچ سے سامراج کے پروردہ، مفاد پرست اور موقع پرست حاشیہ برداروں کو ہمیشہ ان سے دور رکھا۔
معروف ترقی پسند شخصیت اختر حسین رائے پوری نے ایسی کشمکش کی صورتحال میں ولادیمیر لینن کی سوچ اور لائحہ عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ہم ادب کو کامل طور پر آزاد کرنا چاہتے ہیں،۔ صرف سیاسی بندشوں ہی سے نہیں بلکہ دولت اور خودغرض کی پابندیوں سے بھی۔ ہم اسے آزاد کر دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ ہم سرمایہ دارانہ انفرادیت کا خادم بھی نہیں رہنے دیں گے۔” (2)۔
اگرچہ صنوبر کاکاجی مارکسزم اور نیشنلزم کے حسین امتزاج کے حامی تھے تاہم برطانوی سامراج کی براہ راست موجودگی اور خطے کے مخصوص معروضی حالات کے پیش نظر وہ قومی آزادی کی جدوجہد کو آولین اہمیت دیتے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ کاکاجی صنوبر قومی آزادی اور طبقاتی جدوجہد میں موہن داس کرم چند گاندھی کے عدم تشدد کی بجائے مسلح پرولتارين جدوجہد کے قائل تھے۔
یہ درست ہے کہ پشتو زبان وادب کی تاریخ میں اب تک کسی بھی شخصیت کو بابائے تنقید کا لقب نہیں دیا گیا ہے تاہم کریٹکل گروپ آف ڈسکشن کا دعویٰ ہے کہ صنوبر کاکاجی پشتو زبان وادب میں اس معیار پر پورے اترتے ہیں کہ انھیں بابائے تنقید کہا جا سکتا ہے۔ ابھرتے رحجانات کا نباض، اپنی تنقیدی بصیرت، بلند افکار، مغلوب افراد کا محافظ اور انقلابی اعمال کے باعث صنوبر کاکاجی پشتو زبان وادب کے دیگر تمام اہل علم وادب میں منفرد اعلیٰ مقام کے حامل ہیں جنہوں نے پشتو زبان و صحافت میں تنقیدی روایت کی باقاعدہ بنیاد ڈالی۔
واضح رہے کہ افغان پایہ تخت کابل میں اکیڈمی آف سائنسز اور خیبر پشتونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں پشتو اکیڈمی کے قیام سے قبل کاکاجی صنوبر نے ” اولسی ادبی جرگہ” کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس میں وقت کے نمائندہ ادباء، شعراء اور سیاسی شخصیات باقاعدگی کی شرکت ہوتی تھیں۔ پشتو ادب میں صنوبر کاکاجی کو بابائے تنقید لقب شاہد آپکو ایک نیا دعویٰ لگے مگر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر حنیف خلیل کی” پشتو ادب میں تنقید ” نامی کتاب میں نہ صرف مختلف پہلوؤں کو باقاعدہ قلمبند کیا ہے بلکہ مختلف مستند کتابوں کے حوالے بھی دیے ہیں جن میں پشتو ادب اور سیاست کے بعض نامور اشخاص نے پشتو ادب میں تنقید کو رواج دینے کا کریڈٹ باقاعدہ کاکاجی صنوبرحسین مومند کو دیا ہے۔
ان نامور اشخاص میں بابائے پشتو غزل امیر حمزہ شینواری، دوست محمد خان کامل، ہمیش خلیل، ایوب صابر، قلندر مومند، رضا ہمدانی، قمر راہی، اجمل خٹک، ایوب صابر، سیف الرحمن سلیم اور سلیم راز وغیرہ شامل تھے۔ سردست یہاں صرف بابائے پشتو غزل امیر حمزہ شینواری کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ حمزہ بابا کہتے ہیں کہ “ہمارے اولسی ادبی جرگہ نے ادب اور خاص کر تنقید کے بارے میں بہت بڑا کام کیا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اولسی ادبی جرگہ کے قیام سے پہلے ادب میں تنقید نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔” (3) ۔
اولسی ادبی جرگہ سے قبل شعراء و ادباء اپنی تعریف میں اور دوسری شخصیات کے شعری معیار و مقام کو کمتر ظاہر کرنے کیلئے انفرادی تنقید اور طنز وغیرہ کو اختیار کیا لیکن باقاعدہ تنقیدی جائزہ کی کوئی مضبوط روایت موجود نہیں تھی۔ البتہ پشتون نیشنلزم کے پیش رو اور مغل حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کے پیکر پیر بایزید روشان انصاری پر اخوند درویزه کی تنقید کی مثال موجود تھی لیکن وہ اپنے مواد و معیار کے اعتبار سے تنقید کی بجائے تنقیص کے زمرے میں گنی جاتی ہے۔ قمر راہی نے برصغیر کی تحریک آزادی کے ناقابل فراموش کردار صنوبر کاکاجی اور اولسی ادبی جرگہ کی گرانقدر تنقیدی خدمات کو دو ٹوک الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ ” کاکا جی صنوبرحسین مومند نے بکھرے ادیبوں کو یکجا کرنے کیلئے اولسی ادبی جرگہ بنایا۔ میں بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج جو ہم میں کوئی تنقیدی شعور ہے یا ادب کے کسی موضوع پر گفتگو کر سکتے ہیں تو یہ سب کچھ کاکاجی کی کرم فرمائیاں ہیں۔” (4) ۔
یہ بات طے ہے کہ تنقیدی ادب کو باقاعدہ شکل دینے، تنقیدی شعور کو اجاگر کرنے اور باقاعدہ اداروں کا قیام “اولسی ادبی جرگہ” اور “ویش زلمیان” کاکاجی صنوبرحسین مومند اور استاد نور محمد ترہ کئی (سورگل) کے کارنامے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ادیبوں اور دیگر افراد کو تنقید کرنے کا اہل بھی بنایا بلکہ انہیں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔ اپنی منفرد اور ممتاز تخلیقی و تنقیدی اوصاف کے باعث ہم کریٹکل گروپ ڈسکشن کی جانب سے کاکاجی صنوبر کو پشتو ادب کے بابائے تنقید قرار دینے کا مناسب ومستحق سمجھتے ہیں۔
کاکا جی صنوبرحسین مومند کے زیراہتمام تنقیدی نشستوں کی شمع پہلی بار پشاور میں روشن کی گئی تھی۔ دھیرے دھیرے مختصر میں اس کی روشنی پورے پشتونخوا میں پھیل گئی۔ صنوبر کے خون جگر سے روشن کئے گئے چراغ سے اپنے اذہان کو منور کرنے والے دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور ادیبوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ صنوبر اور سورگل کی گرانقدر خدمات اور کارنامے توجہ طلب اور تحقیق طلب ہیں۔ سردست یہ بتانا ضروری ہے کہ صنوبر کاکاجی کی تنقیدی ادبی نشستوں کا احوال دستاویزی شکل میں بھی موجود ہیں اور کوئی بھی نقاد، محقق یا مورخ اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کاکا جی صنوبرحسین مومند اپنی بنیادی شناخت سیاست کو ہی بتاتے ہیں ہر چند کہ وہ ادب وصحافت کے شعبوں میں ہمیشہ زیادہ موثر وفعال رہے۔ وہ سیاست اور ادب کو اولسی حقوق واختیارات کا محافظ گردانتے ہیں۔ اردو ادب کا پورے برصغیر پاک و ہند میں جانا پہچانا نام گوپی چند نارنگ نے ادب، انسان اور زندگی کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے کہا کہ ” مسئلہ فقط ادب یا ادبی تنقید کا نہیں ہے، انسان اور زندگی کا ہے۔ مثلاً اگر ہم فقط وحدت معنی یا کثرت معنی کی بات کریں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر مسئلہ حقیقت انسانی کی نوعیت کا ہو یا انسان کی شناخت یا انسان کی تحلیل ہوتی ہوئی پہچان کا ہو تو پوری زندگی اس کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔ ادب اور ادبی تنقید کی حیثیت چونکہ علوم انسانیہ کے نگہبان کی ہے، ادب کا اس مرکزی مسئلے کی زد میں آنا ناگزیر ہے۔” (5)۔
صنوبر کاکاجی سیاسی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی دنیا میں بھی اپنا بھرپور حصہ رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری منفرد انداز کی حامل ہے۔ انکے اشعار میں گہرا طبقاتی شعور ہر جگہ واضح نظر آتا ہے۔ وہ اپنی بات دلچسپ سوالیہ انداز میں کرتے ہوئے شخصیات کے مختلف پہلوؤں کو طبقاتی نقطہ نظر سے الگ الگ بیان کرتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے سیف وقلم کے علمبردار خوشحال خان خٹک اور سلطان محمود غزنوی کی شخصیات کے دو متضاد پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ خوشحال خان خٹک کو خان سمجھا جائے یا افغان۔۔۔۔۔۔ ؟ اور سلطان محمود غزنوی کو سلطان تصور کیا جائے یا مسلمان۔۔۔۔۔۔ ؟ گویا وہ تاریخی شخصیات کو بھی طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر دیکھنے کے قائل ہیں۔
اہل علم و سیاست میں یہ بحث بھی جاری رہتی ہے کہ ادارے رویے بناتے ہیں یا رویے ادارے تشکیل دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ اس ضمن میں صنوبر کاکاجی کے مضبوط و مستحکم ارادے ہی اداروں اور رویوں پر غالب رہے ہیں۔ ان کی کاوش اور دانش نے اولسی ادبی جرگہ بنایا اور اسی ادارے نے علمی و ادبی رویوں پر اپنے خلقی تعمیری اثرات بھی مرتب کیے۔ تقسیم ہند سے قبل ادب اور سیاست کے اُفق پر ابھرنے والی شخصیات کاکا صنوبر کے فکری قافلے میں ہوئیں اور بعد کے اہل فکر وقلم کو بھی جدید تنقید اور تنقیدی رحجانات سے متعارف کرایا گیا۔
تنقید کو اگر وسیع معنوں بیان کیا جائے تو طنز، تبصرہ، تجزیہ، مکالمہ اور سوال اٹھانا یہ سب کے سب تنقید کا ہی فریضہ ادا کرتے ہیں جس کا مقصد معاشرتی سطح پر تعمیر و اصلاح کو فروغ دینا ہے۔ تنقید دراصل تحقیق وتخلیق میں نکھار پیدا کرتی ہے، علم و عمل میں توازن قائم کرتی ہے، موجود علم وفلسفہ کی تطہیر کرتی ہے، شکوک و شبہات کو ختم کرنے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، بالادست طبقہ کے استحصالی حربوں و ہتھکنڈوں کو چیلنج کرتی ہے اور توہمات و خرافات کی پیروی سے نجات دلاتی ہے۔ تنقید کا یہ رجحان جب محروم و محکوم لوگوں کے اذہان میں جگہ پا لیتا ہے تو وہ اندھی تقلید سے انکار کر کے انسانی عقل کی بالادستی اور معاشی مساوات کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شعر و ادب کی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کی کاوشوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور جو شخص جس مقام کا حقدار ہے اسے وہ مقام دینے سے دامن نہ چھڑایا جائے۔ ورنہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ سچائی بہرحال اجاگر ہوگی اور آنے والی نسلیں تاریخ کو درست کرنے کا فریضہ انجام دیتی رہیں گئیں۔ اسطرح ادب سیاست کے نام پر گوریزی کرنے والے بالآخر ضرور بےنقاب ہو جائیں گے۔
حوالہ جات:۔
۔1۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، اشاعت ہفتم 2010، صفحہ 44۔
۔2۔ ترتیب و تدوین حمیرا اشفاق، ترقی پسند تنقید پون صدی کا قصہ، ناشر سانجھ پبلیکیشنز لاہور، 2012، صفحہ 26۔
۔3۔ پروفيسر ڈاکٹر حنیف خلیل، تنقید په پشتو ادب کی، غزنوی پبلشر سویس پلازہ کوئٹہ، ناشر، 2011، صفحہ 146۔
۔4۔ پروفيسر ڈاکٹر حنیف خلیل، تنقید په پشتو ادب کی، غزنوی پبلشر سویس پلازہ کوئٹہ، ناشر، 2011، صفحہ 150۔
۔5۔ انتخاب و ترتیب قاسم یعقوب، ادبی تھیوری (ایک مطالعہ)، ناشر سٹی بک پوائنٹ کراچی، اشاعت 2017، صفحہ 21۔