پائندخان خروٹی
فلسفہ اور سائنس کی دنیا میں کوئی بھی رائے حتمی اور مطلق نہیں ہو سکتی۔ خلقی سیاسی مفکورہ میں ہر دریافت شدہ اصول یا قانون میں نئی دریافت کی تلاش نظر آتی ہے، ہر قائم شدہ دلیل کے مقابلے میں ایک اور نئی دلیل اُبھر آتی ہے، ہر سوال سے ایک نیا سوال جنم لیتا ہے، ہر جواب سے قبل اس کے پس منظر اور پیش منظر پر نئے فلسفیانہ تناظر میں ڈائیلاگ شروع ہو جاتا ہے، کبھی وجود پر عدم کا اور کبھی عدم پر وجود کا گمان ہوتا ہے، توہمات پر مبنی اعتقاد و اقرار کے بطن سے انکار جنم لیتا ہے، جو کُل اور جُز کے درمیان ربط اور توازن قائم نہیں کر سکتا وہ جدلیاتی فلسفہ کا بہت علمی خزانہ گنوا دیتا ہے۔
اس طرح ڈائیلاگ، ارگومینٹشن اور لوجیکس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے لہٰذا منطقی مغالطوں اور پیراڈوکس کا درست ادراک حاصل کیے بغیر فلسفہ کے میدان میں فکری رہنما یا مدلل کھلاڑی نہیں بن سکتے۔ لاجیکل فیلسی اور پیراڈوکس فلسفہ ومنطق میں دو اہم اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک داخلی رشتہ بھی موجود رہتا ہے جو بظاہر سچ نظر آتا ہے وہ دلائل کے بعد جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے اور جیسے اکثر جھوٹ سمجھا جاتا ہے وہی سچ بن کر سامنے آجاتا ہے۔ درباری تاریخ اور بورژوا نصاب کے سچے جھوٹے، بڑے چھوٹے، خوبصورت بدصورت، عالم علم دشمن اور رہبر رہزن ہو سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فلسفہ کے مطالعہ میں لاجیکل فیلسی اور پیراڈوکس کو الگ الگ سمجھنا اور ان کے درمیان فلسفیانہ رشتہ کا فہم حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک پیشانی ہے اور اتنے خداؤں کا ہجوم سب بضد ہیں انہیں معبود ہی سمجھا جائے پیراڈوکس دو متضاد عناصر کی ایک اکائی ہے۔ اس میں سچ اور جھوٹ دونوں موجود نظر آتے ہیں دو مختلف امکانات کو مدنظر رکھ کر ہمیں مجموعی تناظر میں جائزہ لینے کے بعد حقیقت کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ٹیکسٹ اپنے کونٹیکسٹ کے بغیر واضح نہیں ہو سکتا۔ یعنی کسی شئے کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے سے قبل اس کے پس منظر، پیش منظر اور تمام متعلقہ عوامل کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ انگلش کا مشہور مقولہ ہے کہ
” Every Lawyer is a Liar۔
” مندرجہ بالا عبارت میں سچ اور جھوٹ کے دونوں امکانات موجود ہیں۔ ایسا خود متضاد بیان یا دو مختلف دستیاب مواقعوں کے درمیان انتخاب کرنے کی مشکل کو انگلش میں ڈائیلمہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہر وکیل اپنے دلائل میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے لیکن اس جملے سے فوری اور یکطرفہ نتیجہ حاصل کرنا درست نہیں ہے کیونکہ خود اس جملے میں بیک وقت اثبات اور نفی کا رویہ ملتا ہے۔ اس طرح سیاست کی دنیا میں یہ بات مشہور ہے کہ ” دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔” اگر اسے متعلقات سے الگ کر کے دیکھا جائے تو ایک مسلمہ قانون کی شکل میں نظر آتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیانیہ ہر حال میں درست نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ پیراڈوکس آپکی رائے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ غیرحقیقی بھی ہو۔ پیراڈوکس میں پائے جانے والے دو مختلف عناصر میں سے جو آپ قبول کرتے ہیں۔ اس میں رد بھی موجود ہے اور جو آپ رد کرتے ہیں اس میں قبولیت بھی موجود ہوتی ہے۔ فلسفہ میں پیراڈوکس کی طرح لاجیکل فیلسی کا معاملہ بھی بہت پیچیدہ اور گنجلک ہوتا ہے۔ لاجک سچائی تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے جبکہ فیلسی جھوٹ کے ذریعے سچ تک پہنچنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ یعنی فیلسی ایک غیرمنطقی عمل ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام رواج ہے کہ تھوڑے یا زیادہ افراد کے کردار کو دیکھ کر اکثر اسے قومی یا نسلی صفات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور منطقی سچائی نادانستہ طور پر مذہبی اور نسلی تعصب کی نظر ہو جاتی ہے۔
ہر قوم اور ہر نسل میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں چند اچھے افراد کی بنیاد پر پوری قوم کو اچھا یا چند برے افراد کو دیکھتے ہوئے پوری قوم کو برا کہنا منطقی طور پر درست نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ ایک فرد میں بھی اچھائی اور برائی کے دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یعنی کسی شخص کو مکمل طور پر اور ہمیشہ کیلئے بُرا یا بھلا نہیں کہہ سکتے۔ اس ضمن میں شاعر نے بجا فرمایا ہے کہ بُرا بُرے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے اس طرح ہر طبقاتی معاشرے میں بالادست طبقہ طبقہ کے بااثر افراد کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ بہت نیک اور دیانتدار ہیں اور اس کے خلاف اب تک کوئی واضح ثبوت اور ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔
سرمایہ دار، جاگیر دار اور سرکردہ مذہبی افراد کو پارسا اور دودھ کے دُھلے ثابت کرنے کیلئے ان کے حق میں طرح طرح کے جواز پیش کیے جاتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار بعض درباری حضرات اپنے بادار کو بڑا ثابت کرنے کیلئے خواب کو بھی بطور دلیل پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں پھر ان من گھڑت خوابوں کو میڈیا کے ذریعے اچھالے جاتے ہیں تاکہ کم فہم اور کم نظر خوف و ڈر کے شکار اور لالچی لوگ ان پر یقین بھی کر لیں۔ تنقیدی اور تخلیقی ذہن رکھنے والے تو ان روایتی، غیرعقلی، من گھڑت قصے کہانیوں اور خرافات سے بالاتر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تنقید اور تجزیہ میں عقلی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل غیرمعقول باتوں، خوابوں اور خوشامدیوں سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ واقعتاً بالادست طبقہ کے بااثر افراد اور اُن کو اخلاقی جواز فراہم کرنے والے مذہبی عناصر کسی عیب سے پاک ہیں۔
سائنسی طرز فکر، سوالیہ انداز اور تنقیدی نظر اختیار کرنے سے ان کا تقدم و تقدس اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ جنونیت اور مشتعل میلے لگانے والوں کے خلاف اہل علم وادب اپنے حقیر مفادات کی خاطر چُپ سادھ لیتے ہیں اور ہمیشہ گرے ایریاز میں ہی پناہ لیتے ہیں۔ بہرحال طاقت اور سرمایہ کے مالکان کے خلاف آج اگر کوئی نہیں بولتا یا دبے الفاظ میں بولتا ہے یا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا تو زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ اس پر الزامات لگ بھی سکتے ہیں اور ثابت بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ علم وفلسفہ کے حلقوں میں بعض اہل فکر وقلم اپنی بات منوانے کیلئے دلائل اور منطق اختیار کرنے کی بجائے چند مخصوص برگزیدہ شخصیات کا حوالہ دیتے ہیں اور اس کا وزن استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو منوانا چاہتے ہیں۔ اس سے تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ بات کرنے والے کے اپنے دلائل میں کوئی خاص معقولیت یا دم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ کسی نامور دانشور یا مفکر پر انحصار کرتے ہیں۔ تیسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے قارئین و سامعین کو بڑی شخصیت یا کتاب کے نام پر دباتے ہیں اور اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
عام رواج ہے کہ علم ودانش کے معاملات میں کسی بھی مسئلہ پر اقرار یا انکار کی روایت مضبوط ہے اور ” تیسری رائے” رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، یہ بھی لاجیکل فیلسی کی ایک صورت ہے۔ مثال کے طور پر فلسفہ کی دنیا میں وجود کے انکار اور اقرار پر مبنی مکاتب فکر کا تصور عام ہے جبکہ فلسفہ تشکیک کے حامی مفکرین و دانشور حضرات کی تعداد آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گویا فلسفہ تشکیک میں طے شدہ اقرار اور انکار دونوں پر شک کیا جاتا ہے۔ تشکیکی فلاسفرز علم ودانش کے سفر کو نامکمل سمجھتے ہیں اور حتمی سچائی کے متلاشی ہیں۔
جبکہ فلسفیانہ سچائی یہ ہے کہ کوئی شے حتمی اور مطلق نہیں ہوتی جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز ارتقاء پذیر ہے تو دراصل مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ کے وجود پر سوالیہ نشان بھی ہے لہٰذا تشکیک بھی حتمی نہیں ہو سکتی اور تبدیلی بھی خود تبدیل ہو جاتی ہے۔ فلسفہ تشکیک کے شک، طنز اور تنقید کے مقابلے میں بھی کوئی نیا مکتب فکر سامنے آسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تنقید پر تنقید، شک پر شک، سوال پر سوال, طنز پر طنز اور نقاد پر نقاد کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ یہی انسانی ارتقاء اور ترقی کا سفر ہے۔
فضاء نہیں ہے ابھی کُھل کے بات کرنے کی
بدل رہے ہیں، زمانے کو ہم اشاروں سے