سید خرم رضا
ملک کی مذہبی شبیہ بنانے کے لئے ہم سنگھ اور برسر اقتدار جماعت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن اس کے لئے جہاں اصل میں عالمی سیاست ذمہ دار ہے وہیں فلموں کی کہانی لکھنے والے اور بنانے والے بھی ذمہ دار ہیں۔
سعودی عرب کا نام سنتے ہی ایک ایسے مذہبی ملک کی شبیہ تصور میں آتی تھی جہاں مسلمان عمرہ اور حج کی سعادت کے لئے سفر کرتے ہیں۔ سیاسی طور پر یہ تصور میں آتا تھا کہ سعودی عرب ایسا اسلامی ملک ہے جو پٹرول کے ذخائر کی وجہ سے معاشی طور پر بہت طاقتور ہے اور اپنی اس معاشی طاقت کی وجہ سے وہ کئی مغربی ممالک کا دوست بھی ہے اور کئی کی آنکھوں کا بال بھی۔ لیکن اب دور بدل رہا ہے نہ تو اب کوئی ملک پٹرول کی طاقت پر معاشی طور پر طاقتور تصور کیا جاتا ہے اور نہ ہی سعودی عرب کو ایک مذہبی ملک کہا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب میں اب پہلے کی طرح پابندیاں نہیں ہیں، وہاں اب خواتین صرف گھروں کی زینت نہیں ہیں بلکہ ان کو اب صرف بغیر محرم کے گاڑی چلانے کی اجازت ہی نہیں ملی ہے، بلکہ مغربی ممالک کی طرح اپنے ملک میں فلم فیسٹیول کا انعقاد بھی کر سکتی ہیں اور اسے دیکھ بھی سکتی ہیں۔ سعودی عرب کن سیاسی اور معاشی دباؤ کی وجہ سے اپنے معاشرہ میں یہ انقلابی تبدیلی لایا اس پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ ابھی لکھا جانا ہے، لیکن ان تبدیلیوں کی وجہ سے سعودی عرب کی مذہبی شبیہ بہت حد تک دھندلی پڑ گئی ہے اور شائد یہ سعودی حکومت یعنی ایم بی ایس کہئے یا محمد بن سلمان کہئے کی مرضی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس شبیہ کے تبدیل ہونے سے سعودی عرب کو معاشی اور سماجی طور پر کتنا فائدہ ہوتا ہے۔
سعودی عرب کے برعکس ہندوستان میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ہمارا ملک اب ایک مذہبی ملک بننے جا رہا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم جس طرح ہر تقریب کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے عوام لاشعوری طور پر مذہبی ہوتے جا رہے ہیں اور دھیرے دھیرے اس میں شدت آبھی رہی ہے اور زیادہ آئے گی بھی۔ ایک خاص مذہب کی تشہیر کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگ بھی مذہبی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں سعودی عرب کی مذہبی شبیہ دھندلی پڑ رہی ہے وہیں ہندوستان کی شبیہ مذہبی ملک کی بنتی جا رہی ہے۔
ہندوستان میں برسر اقتدار جماعت کا خواب تھا اور وہ اس ملک کو مذہبی بنانے کی کوشش بھی کر رہی تھی، اب کسی حد تک اس کو کامیابی بھی مل گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے اس ملک کو کتنا فائدہ ہوگا کیونکہ پاکستان کو ضیاء الحق کے ذریعہ مذہبی ملک بنانے کے نقصانات سب کے سامنے ہیں اور پاکستان خود کچھ بھی کہے لیکن پوری دنیا میں اس کی پہچان دہشت گرد ملک کی بن کر رہ گئی ہے۔ بر سر اقتدار جماعت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر سیاسی فائدے کے لئے عوام کو مذہبی نشہ کرا دیا تو پھر اس نشہ کو چھوڑوانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
موجودہ حالات یا ملک کی مذہبی شبیہ بنانے کے لئے ہم سنگھ اور بر سر اقتدار جماعت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن اس کے لئے جہاں اصل میں عالمی سیاست ذمہ دار ہے وہیں فلموں کی کہانی لکھنے والے اور بنانے والے بھی ذمہ دار ہیں۔ ان کہانی لکھنے والوں میں اگر سلیم خان اور جاوید اختر کی سلیم–جاوید کے نام سے مشہور جوڑی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
جس طرح ’نکاح‘ فلم نے تین طلاق کے مسئلہ کو اجاگر کیا تھا ویسے ہی سلیم جاوید کی جوڑی نے جتنی بھی کہانیاں لکھیں اس کے آخر میں مذہب کی جیت کو پیش کیا۔ ان کی تقریباً ہر کہانی پر بنی فلم میں ہیرو کو غیر مذہبی یا مذہب سے باغی دکھایا گیا لیکن آخر میں اسی باغی غیر مذہبی ہیرو کو مندر اور بھگوان کے قدموں میں پچھتاوا کرتے اور معافی مانگتے دکھایا گیا۔
دراصل فلم میں سچائی کی برائی پر جیت دکھانے کے لئے جو انہوں نے پیش کیا، اس نے عوام یا ناظرین کے ذہن میں بٹھا دیا کہ ان کی پریشانیوں کے حل کے لئے مذہب ہی کا راستہ ہے۔ آج ہم جو سماج میں اور سیاست میں دیکھ رہے ہیں یہ انہیں کہانیوں کا نتیجہ ہے۔ جاوید اختر جن کا تعلق بائیں محاذ سے بھی ہے اور ان کی شبیہ ایک آزاد خیال دانشور کی بھی ہے انہوں نے اس پودے کو بویا اور سینچا ہے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی