سری لنکن شہری کا قتل، کیاریاست خوفزدہ ہے


لیاقت علی

سری لنکن شہری پرانتھا کمارا کا قتل بلاشبہ اندوہناک اورخوفناک ہے۔یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے جس کاارتکاب کرنے والوں کو اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ریاستی اورحکومتی اشرافیہ کی صفوں میں اس قتل کی بدولت اس قدرخوف وہراس کیوں پھیل گیا ہے۔توہین مذہب کےنام پرنہ یہ کوئی پہلا قتل ہے اورنہ ہی شایدآخری کیونکہ انتہاپسندی ہمارے سماج اورہمارے ریاستی اداروں کی جڑوں میں جس نیتجے تک پھیل چکی ہے اس کے پیش نظربہتری کی کوئی فوری توکجا مستقبل قریب میں بھی امید نہیں ہے۔

پریانتھا کمارا کے اس بہیمانہ قتل سے قبل 75 پاکستانی شہری مختلف اوقات میں ماورائے عدالت اس الزام میں قتل ہوچکے ہیں اور1500 کے قریب ایسے ہیں جن پر یہ الزام لگایا گیا اور انھیں طویل عرصے تک جیلوں میں رہنا پڑا اور بہت سےاب بھی جیلوں اورسزاے موت کی کوٹھڑیوں میں اذیت ناک زندگی گذارنے پر مجبورہیں۔

پریانتھا کمارا کےقتل کےدو نتائچ ایسے ہیں جنھوں نے ہماری ریاستی اورحکومتی اشرافیہ کوبہت زیادہ خوف زدہ کردیا ہے۔ایک کا تعلق ہماری معیشت سے ہے اور دوسرے کا تعلق ہماری فوج اور علاقائی جیو سٹریٹجک انتظام وانصرام سےہے۔ سیالکوٹ کا ہماری معیشت اور ہماری زرمبادلہ کی صورت حال میں رول بہت اہم ہے۔ کراچی سیال کوٹ اور فیصل آباد تین ایسے شہر ہیں جو پاکستان کی معیشت میں بہت اہم کردار کے حامل ہیں۔ ان تینوں میں شہروں میں ہونے والے سماجی سیاسی اور فرقہ ورانہ واقعات اور حادثات ہماری معیشت کو متاثر کرتے ہیں۔

سیالکوٹ میں ہونے والا یہ واقعہ نہ صرف پاکستان کے بیرونی امیج بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کرسکتا ہے بلکہ خبریں تو ایسی بھی آرہی ہیں کہ کچھ امپورٹرز نے سیالکوٹ کے صنعتکاروں سے ہوئے معاہدے منسوخ کرنے کا عندیہ دے دیا ہے اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی گہرے بحران میں پھنسی ہوئی ہے مزید مشکلات اور مسائل کا شکار ہوجائے گی۔ لہذا یہ فیکٹر ایسا ہے جس کی بنا پر ہمارے وزیراعظم رحمت اللعالمین کے نام پر قتل کرنے والوں کو معاف نہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔

لگتا ہے کہ پوری ریاست اور حکومت کو گذشتہ چار دنوں سے پریانتھا کمارا کے قتل کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ ہماری حکومت کے ہاتھ پاوں پھول گئے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اس قتل کے ممکنہ نتائچ سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسلسل دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ قاتلوں کو ان کے کیے سزا ضرور دلانے میں سنجیدہ ہیں۔

پریانتھا کمارا کے قتل کے حوالے سے دوسر نتیجہ ایسا ہے جو پہلے یعنی معاشی مشکلا ت سے بھی زیاد اہم ہےاور وہ ہے ہماری فوج کے سری لنکا کی فوج سے موجود قریبی تعلقات اور اس قتل کے نتیجے میں ان میں ممکنہ طور پربگاڑ۔ جن دنوں سری لنکاکو تامل بغاوت کا سامنا تھا ان دنوں پاکستان نے سری لنکا کی نہ صرف اسلحہ بلکہ تکنیکی معاونت بھی فراہم کی تھی کیونکہ تامل بغاوت کو بھارت سرکار کا تعاون اور امداد میسر تھی۔

پاکستان بھارت کی مخالفت میں سری لنکا سرکار کی حمایت میں پیش پیش تھا تامل بغاوت جو کئی دہائیوں پر محیط تھی اور جو بلاشبہ دنیا کی مسلح بغاوتوں میں بہت نمایاں تھی کو ایک طویل عرصے تک بھارت کا تعاون اور مدد حاصل تھی۔ بھارت کی ریاست تامل ناڈ کے عوام اور وہاں کی سیاسی قیادت اس کا تعلق کسی بھی سیاسی فکر اور جماعت سے کیوں نہ ہو سری لنکا کی اس بغاوت سے ہمدردی رکھتے تھے۔ پاکستان تامل بغاوت کو کچلنے میں سری لنکا کی حکومت کے ساتھ تھا اور اس نے متعدد مواقع پر اس بغاوت کو کچلنے کے لئے نہ صرف تکنیکی امداد بلکہ اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔

پاکستانی فوج کے ماہرین کولمبو میں سری لنکا کی فوج کو مشورے اور معاونت کے لئے موجود رہتے تھے۔ اگر یہ کہاجائے تو شائد مبالغہ نہ ہو کہ تامل بغاوت کو کچلنے میں پاکستان کی فوج کا بھی حصہ ہے۔ تامل بغاوت کے دنوں میں پاکستان اور سری لنکا کی افواج کے مابین قائم ہونے والے یہ تعلقات کسی نہ کسی سطح پر اب تک موجود ہیں ویسے بھی پاکستانی فوج حکمت عملی کے طور پر جنوبی ایشیائی خطے میں بھارت کو بیلنس کرنے کے لیے دیگر تمام ممالک اور ان کی افواج سے تعلقات میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات دینے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔

سری لنکا کی فوج سے پاکستان کی فوج کا یہ تعلق وہ اہم وجہ ہے جس کی بنا پر عمران خان کی حکومت سری لنکن پریاتنھا کمارا کے قتل کو بہت زیادہ سیریس لے رہی ہے اور یہی وجہ ہے اس قتل کے حوالے سے ہونے والوں اجلاسوں میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید کی شمولیت نمایاں طور دکھائی جاتی ہے۔

Comments are closed.