بیرسٹر حمید باشانی
پچھلے دنوں عرض کیا تھا کہ1964کے موسم سرما میں سیکورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر پربحث کے دوران صرف پاکستان میں ہی نہیں، بھارت میں بھی بڑی حساسیت اور بےچینی تھی۔
بیس فروری1964 کو بھارت سے امریکی سفیر نے ایک ٹیلی گرام سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا ۔ اس ٹیلی گرام میں کہا گیا کہ سکیورٹی کونسل میں کشمیر پر ہونے والے مباحثے سے بھارتی سرکار اور عوام میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے۔ اس مسئلے پر سکیورٹی کونسل میں بحث اور سفارت کاری کی وجہ سے بھارت کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات کو نقصان پہنچا ہے، اور پاکستان بھارت کے درمیان خلیج پہلے سے زیادہ وسیع ہوئی ہے۔
سفیر لکھتا ہے کہ گزشتہ جمعہ کو کلکتہ میں پریس کانفرنس کے دوران مجھے کشمیر پر امریکی پالیسی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے میں مشکل پیش آئی۔ تقریبا پچاس اخباری نمائندوں کے سامنے مجھے بڑی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جس کا پہلے کبھی مجھے اس طرح تجربہ نہیں ہوا تھا۔یہ صرف اخباری نمائندوں کی ہی بات نہیں ہے۔ میرے گھر پر ایک چھوٹے سے ڈنر پر پوری شام ، جو معاشی معاملات پر بات چیت کے لیے رکھی گئی تھی ، کشمیر اور سیکورٹی کونسل پر بحث کی نظر ہو گئی۔
طویل بحث اور سفارتی جوڑ توڑکے بعد بلاخر مئی 1964 کو قرار داد کے بجائے سکیورٹی کونسل کے صدر نے اس معاملے کو سمیٹتے ہوئے ایک اختتامی بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے کشمیر پر ہونے والے مباحثے کا خلاصہ صاحب پیش کیا ۔ سیکورٹی کونسل کے صدر نے کہا کہ سکیورٹی کونسل کے ممبران کا اس ہفتے کا مباحثہ فروری اور مارچ میں کشمیر پر ہونے والے مباحثے کا تسلسل تھا ۔ سکیورٹی کونسل کے ممبران نے مارچ میں ہونے والے مباحثے کے دوران اس مسئلے پر اپنی حکومتوں کا نقطہ نظر پیش کر دیا تھا۔ سکیورٹی کونسل کے نمائندوں نے جموں کشمیر کی قانونی حیثیت پر بھی تبادلہ خیال کر لیا تھا ، اور اس کے ساتھ اس مسئلے پراقوام متحدہ کے چارٹر کے جن اصولوں کا اطلاق ہوتا تھا، وہ بھی بیان کر دیے تھے۔
اب صورت حال کے گہرے جائزے کے بعد سکیورٹی کونسل کے ممبران نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ پاکستان اور بھارت باہمی تنازعات، بشمول تنازعہ جموں کشمیر طے کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، اور ان کو آپس کے تنازعات کو عالمی امن کی خاطر باہمی گفتگو سے حل کرنا چاہیے۔
سکیورٹی کونسل کے ممبران نے اس امید کا اظہار کہ دونوں فریقین کشمیر کے مسئلے کا حل باہمی رابطے اور گفت وشنید سے کریں گے۔ کچھ ممبران نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس معاملے میں سہولت کار کا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور فریقین کے درمیان جموں کشمیر کے مسئلے پر گفتگو کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن کچھ دوسرے ممبران کی رائے تھی کہ کسی بھی طرح کی بیرونی مداخلت کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان معاملات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں،یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے کسی قسم کی مدد کے لیے بھی دونوں ملکوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اس طرح سکیورٹی کونسل کی طرف سے کسی قابل ذکر پیش رفت پیش رفت یا قرار دادکے بجائے صدر کی طرف سے اختتامی بیان پر اکتفا کر لیا گیا۔ اور مسئلہ کشمیر ایک بار پھر برصغیر ہندو پاک کے کورٹ میں پھینک دیا گیا،جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی گفتگوکے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
جس وقت سکیورٹی کونسل میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی ، اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان باہم سفارت کاری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اس دوران پنڈت نہرو نے اچانک شیخ عبداللہ کی رہائی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس عمل کی ایک تفصیلی رپورٹ اس وقت کی نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی۔ ” نیو یارک ٹائمزنے لکھا کہ شیخ محمد عبداللہ اللہ جن کو سازش اور پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے الزام میں میں قید کردیا گیا تھا کو برصغیر کے دو متحارب ممالک کے درمیان ثالث بنا دیا گیا ہے ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی آشیربادسے وہ کل راولپنڈی روانہ ہوں گے، جہاں وہ صدرایوب خان سے مل کر وہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ، جو اقوام متحدہ اورمغرب کی طاقتور قوتیں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں ، اور وہ چیز ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ تعلقات اور جموں کشمیر کے مسئلے کا حل ہے۔
صدر ایوب نے شیخ محمد عبداللہ کو دورے کی دعوت دی ہے۔ اور وہ ان سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرونے کہا ہے کہ اگر شیخ محمد عبداللہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات قائم کر سکتے ہیں، تو یہ دونوں ممالک کے لئے ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے سرحد کے دونوں اطراف میں کافی امید پیدا ہوئی ہے۔ اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنڈت نہرو کے ساتھ دو ہفتے تک بات چیت کرنے کے بعد شیخ محمد عبداللہ اپنے ساتھ کیا لے کر جا رہے ہیں ، جووہ صدر ایوب کو پیش کریں گے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ صدر ایوب اس پیش کش پرکس طرح رد عمل دیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کچھ فارمولوں پر بات چیت کرتے رہے ہیں ، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ فارمولے کیا ہیں ؟غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق تین قسم کے امکانات ہیں ۔سب سے پہلا یہ ہے کہ کشمیر کو ایک ” کنڈو مینیم ” بنا دیا جائے ، جس پر انڈیا اور پاکستان دونوں کی مشترکہ حکمرانی ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ برصغیر پر مشتمل ایک کنفیڈریشن بنائی جائے، جس میں انڈیا پاکستان اور کشمیرایک ڈھیلی ڈھالی یونین کے اندر شامل ہوں۔ تیسرا حل یہ ہے کہ کشمیر کو دس سال کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے۔اوردس سال بعد وہاں پر استصواب رائے کرایا جائے کہ کشمیر کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔
شیخ عبداللہ اس دورے کےدوران ایوب خان سے ان سارے فارمولوں پر بات کرے گا۔ لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ پنڈت نہرو کی آشیرباد کے باوجود شیخ عبداللہ کے پاس کسی بھی فارمولے پرکوئی حتمی کمٹمنٹ موجود نہیں ہے ۔ بھارتی پارلیمنٹ کے بہت سارے ممبران اور کانگریس پارٹی کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر پر کسی قسم کے سمجھوتے کے حق میں نہیں ہیں ۔ بھارت میں بائیں بازو کے لوگ اور دائیں بازو کے لوگ دونوں اس کی مخالفت کر رہے ہیں،یہاں تک کہ خود پنڈت نہرو نے گزشتہ ہفتے بمبئی میں کہا ہے کہ اگرچہ وہ شیخ محمد عبداللہ کی طرف سے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں ان کی مدد کر رہے ہیں ، لیکن کشمیر کے حوالے سے ہندوستان اپنے بنیادی رویے پر قائم ہے۔انہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی اور پارلیمنٹ سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ پنڈت نہرو کی صحت خراب ہے ، اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگر وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، توان کے پیش رو کئی نسلوں تک اس مسئلے کو حل نہیں کر سکیں گے” ۔
شیخ عبداللہ کا دورہ جاری تھا کہ اچانک ایک ایسا واقعہ ہوا، جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر پس منظر میں چلا گیا، جس کا احوال آئندہ پیش کیا جائے گا۔
♣