مہر جان
پوری تاریخ شناخت کی جنگ کی تاریخ ہے۔ہیگل
فلسفہ سے پہلے بھی گرچہ یونانی شعرا ، ہیسویڈ و ہومر نےانسانی سرگرمیوں کے متعلق سوالات اٹھائے ہیں لیکن فلسفہ کا بنیادی مقصد فقط جاننا نہیں بلکہ تمام انسانی سرگرمیاں و معاملات بھی رہے ہیں ، انسانی سرگرمیوں کا تعلق فلسفہ کی دنیا میں سیاسیات و عمرانیات و اخلاقی ضابطوں سے ہیں یعنی انسان اپنے عمل کے لیے کیا عقلی دلیل رکھتا ہے اور اضطراری افعال کی کیا توجیح کرسکتا ہے؟ یہی اخلاقیات کا دائرہ کار ہے ۔
افلاطون سے پہلے دو مکتبہء فکر (ایپیقیورین و رواقی ) ایسے گذرے ہیں جن میں سے ایک کے لیے خوشی کا عمل سب کچھ تھا جب کہ دوسرے کے لیے نیکی کےعمل میں خوشی مضمر تھی بعد میں افلاطون نے اپنی کتاب “جمہوریہ“میں (جسے انیسویں صدی میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب سمجھا جاتاہے) انہی دو بنیادی سوالات کو بہترین انداز میں اٹھایا جس میں سے ایک کا تعلق نفسیات جبکہ دوسرے کا تعلق سیاسیات سے ہے۔ جہاں افلاطون نفسیات و سیاسیات کے درمیان پُل بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر انصاف کیا ہے اور خوشی کیا ہے کیا بیک وقت ایک انسان ایک صحیح، منصف اور پرمسرت انسان ہوسکتا ہے؟
بعد میں آنے والے فلاسفرز نے انہی سوالات کو بنیاد بنا کر سیاسیات و اخلاقیات کی دنیاؤں میں مکمل ضابطہ دینے کی کوشش کی۔ کانٹ کے ہاں یہ مکمل دو (مسرت و نیکی ) الگ الگ دنیائیں ہیں جن میں مصالحت پیدا کرنے کے لیے خدا کو فرض کیا گیا جبکہ ھیگل نے ان دو دنیاؤں کو یکجاء کرنے کی سعی کی ہے ۔
اس پوری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے ہر سرگرمی کو فلسفہ کی دنیا میں کس طرح بنیاد فراہم کرتا ہے ، وہ اپنے ہر عمل کا اخلاقی طور پہ ذمہ دار ہے ۔ا گر قوم دوستی کو دیکھا جائےتو یہ صرف ایک پولیٹکل آئیڈیالوجی نہیں بلکہ ایک مکمل عملی دنیا یعنی پولیٹکل فورس بھی ہے ، جہاں عمل بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے تب ہی گرامشی جیسا مارکسسٹ تھیورسٹ اس بات پہ حیراں تھا کہ مارکسسٹ فاشزم کے مقابلے میں خاموش تماشائی بنے ہوئےہیں جبکہ نیشنلسٹ ان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
یہ ایک طنزیہ پیرایہ نہیں بلکہ یہ دکھانا مقصود ہے کہ نیشنل ازم آہیڈیالوجی سے بڑھ کر عمل کی دنیا ہے، خاص کر اُس وقت جب اس کا مقابلہ نوآبادیات سے ہو اب اکثر احباب کا یہ پوچھنا کہ آپ نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہیں ؟ احباب کی نظر میں نیشنل ازم فاشزم و تنگ نظری و علاقائیت سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ۔ اب اک انسان کا تعلق فلسفہ و ادب سے ہو پھر احباب کی نظر میں اُس انسان کا تنگ نظر و رجعت پسند ہونا ، واقعی سمجھ سے بالاتر ہے ، احباب کے مطابق کبھی کبھی لگتا ہے کہ نیشنل ازم بھی ایک متھ یا مذہب ہے جس میں انسان جا تو سکتا ہے لیکن فلسفہ و ادب جیسے علوم سے مستفید ہونے کے بعد بھی نکلنا محال ہے ، یہ ساری باتیں بار بار سن کر تنہائی میں ، یا چلتے چلتے سوچنے لگتا ہوں کیا واقعی ایسا ہی ہے کہ میں نیشنل ازم کو مذہب و متھ بنا چکا ہوں یا یہ کہ نیشنل ازم تنگ نظری و رجعت پسندی کا مینارہ ہے؟
جہاں بہت سے دوست اپنے آپ کو نیشنلسٹ اس غرض سے بھی نہیں کہتے کہ وہ اس سے کہیں نسل پرستی و رجعت پسندی کے کیٹگری میں نہ آجائیں کیونکہ ان کی اپنی کیٹگری بہت وسیع ہے جسکا دائرہ کار انسانیت ہے ۔ کیا واقعی جو کچھ بتایا جارہا ہے سب کچھ ویسا ہی ہے نیشنلسٹس کا شمار رجعت پرستی اور تنگ نظر دائرہ سے ہے ؟ وہ علاقائیت و و قبائلیت پہ یقین رکھتا ہے ؟ ان سوالات کو مدنظر رکھ کر جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں جبر کو رقص کرتے دیکھتا ہوں ظالم کو ظلم کرتے دیکھتا ہوں ، سوال کرنے والوں کی ذہنیت کو مدنظر رکھتا ہوں اور پھر سے سوچنا شروع کرتا ہوں کہ آخر میں نیشنل ازم پہ کاربند رہ کر کونسا علمی ، اکیڈمک ، یا انسانیت کے حوالے سے بد دیانتی کا مرتکب ہورہا ہوں ؟ کہ سوالات کو فلسفہ و ادب سے جوڑ کر ، میری ذات سے جوڑ کر ، انسانیت سے جوڑ کر کیا جاتا ہے ۔
کیا بقول لیویناس جب وہ ایک بینک منیجر کے پاس کسی کام کے غرض سے جاتا ہے تو انہیں یہودی سمجھ کر ٹریٹ نہیں کیا جاتا ہے ؟ کیا یہاں بھی ڈیفائن اینڈ رُول جیسی طرز حکمرانی نہیں ؟ کہ آپ کو پہلے بلوچ ڈیفائن کر کے بعد میں ٹریٹ کیا جا تا ہے ،مسخ کیا جاتا ہے ؟ ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور تو اور حتیٰ کہ آپ کی علمی حیثیت کا اندازہ بھی بلوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے ، تب ہی تو لیوی ناس جیسے اجتماعیت سے باغی مفکر نے بھی ڈی کالونائزیشن کے حوالے سے برملا یہ کہا کہ تفریق کی بنیاد شناخت نہیں بلکہ شناخت کی بنیاد تفریق ہے اور اسی تفریق کی بنیاد پر کالوناہزر اپنے حاکمانہ رویے کو چاہے علم کی میدان ہو ، جنگ کی میدان ہو ، ہر جگہ کارگر جانتا ہے کالونائزرکے دانشور چاہے دانشور کا تعلق کسی بھی سیاسی نظریہ سے بشمول لبرل ، ترقی پسند یا مذہبی جماعتوں سے ہو وہ اخلاقی ، سیاسی و تاریخی کوئی بھی جواز قبضہ گیریت کے لیے نہیں رکھتا سوائے طاقت کے جواز کے اور اسی بناء پر وہ کبھی بھی مکالمہ یا اکیڈمک مباحث کا خواہاں نہیں ہوتا ۔اس کے پاس جو آخری راہ بچ جاتی ہے وہ ہے “اصطلاحات کی سیاست۔
اب جب کالونائزڈ، ڈی کالونائزیشن کے لیے نیشنل ازم کو کارگر سمجھ کر آگے بڑھتا ہے لڑتا ہے مرتا ہے تو اسے نیشنلسٹ کا طعنہ ایسے دیا جاتا ہے جیسے وہ مسولینی ، ہٹلر کا نظریہ فاشزم کے سہارے جی رہا ہے جبکہ دوسری طرف جنہوں نے مذہب یا ریاست کے نام پہ محکوم سے اس کی شناخت ، اس کی زبان، اس کے ساحل و وسائل بزور شمشیر و برضا ( پولیٹکل و سول سوسائٹیز ) چھین لیے ہیں وہ خود انسانیت ، ترقی پسندی ، جمہوریت جیسی اصطلاحات کی آڑ میں ترقی پسند ، لبرل ، فلسفہ دان بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ان احباب کو دیکھ کر جنہوں نے اصطلاحات کا بوجھ کندھوں پہ لاد کر پولیٹکل سوسائٹی یا سول سوسائٹی کا حصہ بن کر دانش و فلسفہ بگھارتے ہیں تو مجھے یونان کے سوفسطائی یاد آتے ہیں جو اپنی سوفی (دانش) پہ اسطاء (دھوکہ)کا ملمع کاری کرکے صرف اور صرف باتیں بناتے تھے تب ہی تو سوفسطائی کہلاتے تھے ببقول جون ایلیاء وہ منطق کے ماہر ضرور تھے لیکن مطلق جاہل تھے جبکہ یہاں کے سوفسطائ جہالت اپنی جگہ لیکن منطق کے ازبر سے بھی واقف نہیں ۔
آج کے دور کے سوفسطائیوں کی دور اندیشی فقط اخبار تک محدود ہے پس دیوار نہ وہ دیکھنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی بصارت اور نہ کسی قسم کے مکالمہ کے لیے تیار ہیں بس ان کے پاس چند اصطلاحات یا بقول بابا مری رٹے ہوئے الفاظ ہیں اپنی من پسند اصطلاحات جیسا کہ ترقی پسندی ، لبرل ، جمہوری و وسعت نظر اپنے اوپر لادے ہوئےہیں اور تنگ نظری ، نسل پرستی ، علاقائیت و قبائلیت جیسی اصطلاحات بغیر کسی مکالمہ و اکیڈمک مباحث کے ہمارے اوپر تھونپتے ہیں اب تو اصطلاحات کی سیاست کے حوالے سے اکیڈمک کی دنیا میں کہیں کتابیں لکھی جارہی ہیں اور کہیں مباحث چل رہے ہیں کہ کیسے اصطلاحات و لفظی جگالی کی آڑ میں نو آبادیات ذہنوں کو مسخر کرکے اپنی حاکمیت کو دوام دیتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈیولپمنٹ ڈکشنری ، ڈیولپمنٹ ہسٹری جیسی کتابیں بابا مری کی لائبریری کی زینت تھیں جس میں اصطلاحات کی سیاست پہ مباحث ہے تب ہی تو بلوچستان کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر بابا مری ان جیسے اصطلاحات سے بے پرواہ نظر آئے حتی کہ ترقی مخالف سردار کہلائے اور کبھی بھی ترقی پسند راہشون کا طمع و آرزو دل میں نہیں رکھا۔
بلوچستان کی صورتحال کو جب زمینی حقائق و تاریخ سے جوڑ کر دیکھا جائے تو نیشنل ازم ہی واحد حل کے طور پہ سامنے آتا ہے، گرچہ یہ ایک پر کھٹن و خار دار راستہ ہے جس پہ چلنا ہر کسی کے بس میں نہیں لیکن بقول رومی “مجھے پتہ ہے کہ تُم تھک گئے ہو لیکن رستہ یہی ہے” کیونکہ بلوچستان میں جاری سیاست نالی و روڈ کی سیاست نہ رہی ، نہ ہی شہری سہولیات کی فراہمی جیسے ٹرینڈز و سلو گن اور نہ ہی سی پیک جیسے استحصالی پروجیکٹ کی تکمیل کی سیاست ہے ۔
یہ تمام سیاست انتظامی امور و مراعات کی سیاست ہے نہ کہ بلوچ وطن کی سیاست ، یہاں مزاحمتی سیاست کے بدولت جہاں نظریاتی کرن اجسام و اذہان سے جھانک رہی ہے وہیں پیٹ پرستوں کی سیاست بھی سامنے آرہی ہے اس حوالے سے تاریخ ہمیشہ بے رحم رہی ہے اور اسی فرق کو مدنظر رکھ کر بلوچستان کی صورتحال کو زمینی حقائق سے جوڑ کر نیشنل ازم کو بطور پولیٹکل فورس ڈی کالونائزیشن کے لیے بہترین حکمت عملی قرار دیا جاتا ہے ، بقول بابا مری ’بلوچ قوم اپنی سرزمین کی دفاع حقیقی نیشنل ازم ہی کے ذریعے کرسکتی ہے‘۔
سب سے بڑھ کر یہی جدلیاتی طریق کار بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی مسئلہ کو زمینی حقائق و تاریخ سے جوڑ کر دیکھا جائے گر ان تاریخی حقائق کے مقابلے میں کسی بھی حقیقت کو ’ابدی حقیقت‘ سمجھ کر لاگو کیا جائے تو وہ کسی بھی صورت جدلیاتی نہیں بلکہ بقول اسٹالن محض ’مابعدالطبیعاتی ‘بن کر رہ جاتا ہے جو کہ اک لاحاصل کاوش ہے۔جدلیاتی طریق کار پہ یقین رکھنے والے عمائدین ہمیشہ سے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کرقومی سوال و قومیت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں حتیٰ کہ یہودی قومی سوال پہ سوشلسٹ انقلاب کی بجائے پہلے ’یہودی قومی سوال‘ کو سوشلسٹ عمائدین کے ہاں نہ صرف ترجیح دی گئی بلکہ اس پہ بہت کچھ لکھا گیا ۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ صرف واقعات کو مرتب کرنے کا نام نہیں بلکہ ہر عہد میں لوگ کیا سوچتے تھے اس سوچ کا تجزیہ کرنا بھی مورخ کا کام ہے تب ہی تو کہا جاتا ہے کہ اک مؤرخ کو فلاسفر اور اک فلاسفر کو مؤرخ ہونا چاہیے ۔ بلوچ قوم کا ہر عہد میں سیاسی مسائل کو دیکھنا اور اس پہ ردعمل دینے میں اجتماعیت کا کردار بہت اہم رہا ہے ، اور یہی اجتماعیت شروع دن سے لے کر آج تک ہمیں ایک کرنے میں ، قومی شعور دینے میں ، مزاحمت کی راہیں کھولنے میں خشت اوّل کے طور پہ سامنے آتی رہی ہے ۔ یہ صرف بلوچ قوم کی تاریخ میں نہیں بلکہ تاریخ کی دنیا میں بہت سی جگہوں پہ آزادی کی تحریکیں چلی ہے وہاں فوقیت نیشنل ازم کو حاصل رہی ہے کیونکہ اجتماعی جدوجہد میں ’نفسیاتی کردار‘ نیشنل ازم سے بڑھ کر کسی اور عنصر میں کار فرما نہیں ہے ، اور اس نفسیاتی پہلو کو کسی بھی طرح سے کسی بھی جد و جہد یا تصادم میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ زار روس اور اس کے بعد بدلتے حالات اس امر پہ مہر ثبت کرتے ہیں ۔
ھیگل کے بقول پوری انسانی تاریخ شناخت کی جنگ کی تاریخ ہے ، یہاں تک کہ انسان کی خود شعوری کی پہلی کشمکش کی بنیاد ہی شناخت و آزادی ہے جس پہ ھیگل جیسے فلاسفر نے پورا فلسفیانہ نظام قائم کیا ۔ اور یہیں سے نیشنل ازم کو بھی کسی حد تک فلسفیانہ بنیادیں مل جاتی ہیں جو کہ تاریخی عوامل و خود تحصیلی جیسے مراحل سے گذر کر نیشنل ازم سے انٹرنیشنل ازم کی جانب بڑھتی ہیں ، نیشنل ازم کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ وہ انٹر نیشنل ازم پہ یقین رکھتی ہے نیشنل ازم نہ ہی کسی کی زمین چھیننے اور نہ ہی کسی دوسری قوم کے استحصال کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی جواز بطور قوم رکھتی ہے۔
♣
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں۔حصہ دوم – Niazamana
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟۔حصہ سوم – Niazamana
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟ حصہ دہم – Niazamana
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ حصہ11 – Niazamana
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟۔حصہ 14 – Niazamana