پاکستان کی طرف سے امریکی صدر جو بائیڈن کی جمہوریت کانفرنس میں عدم شرکت کے فیصلےپر ناقدین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہے اور اس کے منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے انتخابات سے پہلے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے، تو جمہوریت کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ اس کانفرنس میں سو سے زائد ممالک شرکت کر رہے ہیں لیکن اس میں روس اور چین سمیت کئی ممالک کو دعوت نہیں دی گئی۔ پاکستان کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ واشنگٹن سے کسی اور وقت کسی اور فورم پر رابطہ جاری رکھا جائے گا۔ دفتر خارجہ نے امریکی حکومت کی طرف سے اس دعوت نامے کا شکریہ بھی ادا کیا۔
پاکستان میں امریکا مخالف جذبات ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران اس طرح کے جذبات پاکستان میں بائیں بازو کی قوتوں میں زیادہ عام تھے لیکن اس جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کی مذہبی اور دائیں بازو کی قوتوں میں یہ جذبات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان میں بہت سارے حلقے امریکا کو ایک ناقابل اعتبار ساتھی سمجھتے ہیں جو مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں چین کو قابل اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ چند ماہ پہلے تک تو پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر امریکہ میں یہ گلہ کرتے نظر آرہے تھے کہ صدر جوبائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے بات تک نہیں کی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پاکستان نے واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ اس کے اسٹریٹیجک مفادات کس کے ساتھ ہیں۔ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے سربراہ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پاکستان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ امریکا کے مقابلے میں چین کو ترجیح دیتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” اس سے صاف ظاہر ہے کہ طویل المدتی بنیادوں پر پاکستان چین کو اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے۔ تاہم پاکستان امریکا سے معاشی مفادات اور ملٹری ٹیکنالوجی لینے کا بھی خواہاں ہے اس کے علاوہ پاکستان نے پہلے ہی چین کو امریکا پر ترجیح دے دی ہے۔‘‘۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات حالیہ برسوں میں کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے اور کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس کانفرنس میں دعوت دے کر امریکا پاکستان سے دوبارہ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن پاکستان کی طرف سے معذرت آنے کے بعد شاید امریکا اب ان تعلقات کو بہت بہتر انداز میں استوار کرنے کی کوشش نہ کرے۔ حسین حقانی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ،” بائیڈن انتظامیہ نے فرض کیا تھا کہ اسلام آباد واشنگٹن سے اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش رکھتا ہے اور ایسے میں اس دعوت نامے کو وہ بہت مثبت انداز میں لے گا لیکن پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت سے معذوری ظاہر کی ہے جس کے بعد ممکنہ طور پرامریکا پاکستان کی ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مدد نہیں کرے گا۔ بالکل اسی طرح عالمی مالیاتی اداروں میں شاید پاکستان کو واشنگٹن کی حمایت حاصل نہ ہوسکے جہاں امریکی حمایت بہت اہم تصور کی جاتی ہے‘‘۔
معروف عسکری تجزیہ کاراور مصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اس فیصلے سے خوش نہیں ہوگا لیکن ان کے خیال میں اس کا یہ مطلب نہیں کہ چین کی طرف اسلام آباد کا شفٹ حتمی ہے۔
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے کا خارجہ امور سے کوئی بڑا تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق پاکستان کے اندرونی مسائل سے ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اس کانفرنس میں شرکت کرتا تو ملک میں جمہوری حقوق کی پامالی پر اس سے کئی سوالات کیے جاتے، جس سے اس کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی ہوتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” پاکستان سے پوچھا جاتا کہ اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے؟ لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ انسانی حقوق کے کارکن جیسے ادریس خٹک وغیرہ کو جعلی مقدمات میں ملوث کر کے سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم کے باوجود قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کو رہا کیوں نہیں کیا جا رہا ؟ تو ان تمام سوالات کے جوابات دینا پاکستان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے شرمندگی سے بچنے کے لیے اسلام آباد نے یہ فیصلہ کیا ہے‘‘۔
dw.com/urdu & web desk