لیاقت علی
مذہب نے گزشتہ چارپانچ دہائیوں میں جس طرح سیاست اورسماجی زندگی کے مختلف شعبوں کواپنی اپنی گرفت میں لیا ہوا ہےاس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔مذہب کہیں دہشت گردی کا نشان بنا ہوا ہے تو کہیں اس نے فرقہ ورانہ عسکریت پسندی کا پرچم بلند کیا ہے اورجہاں فرقہ واریت اوردہشت گردی ممکن نہیں ہے وہاں مذہبی سیاسی جماعتوں کےشکل میں اس نے اپنے اثرونفوذ میں بتدریج اضافہ کیا ہے۔مذہب کا یہ سیاسی اورسماجی پھیلاو کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں ہے یہ ایک مظہر ہے جوسبھی ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
مذہب کے سیاسی اورسماجی پھیلاؤکےاس رحجان نےعوام کی سماجی انصاف اور اپنے سیاسی حقوق کی جدوجہد کوبہت حد پس پشت اوراس کی صفوں میں رخنہ ڈالنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مذہب کے سیاسی اورسماجی استعمال کےسیاق وسباق میں ایک کتاب چھپی ہے جس میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2040 کی دہائی تک مذہب سیاسی اورسماجی میدان میں سیکولرازم سے پسپائی اختیار کرجائے گا۔کتاب کا نام ہے:
why Secularism will Replace Religion
اوراس کے مصنف ہیں نائیجل باربر۔مصنف کا موقف ہےکہ آئندہ بیس سے تیس سالوں میں عوام شعوری طورپراس سطح پر پہنچ جائیں گے جہاں وہ دنیاوی خوشیوں کے حصول کو اخروی نجات پرترجیح دیں گے۔ مصنف نے مذہب کے عروج و زوال کو معاشی ترقی اورقوت کے تناظرمیں سٹڈی کیا ہے۔ ان کے نزدیک معاشی طورپرترقی یافتہ ممالک میں لامذہبوں کی تعداد ان ممالک کی نسبت زیادہ ہے جومعاشی طو پر پسماندہ ہیں۔
مصنف نے137ممالک کی سیاست،سماج اورمذاہب کےنام پرمتحرک تحریکوں اور سیاسی جماعتوں کامطالعہ کیا اوریہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جن ممالک میں سماجی انصاف کامضبوط نظام موجود ہےوہاں مذہب کا سیاسی اورسماجی استعمال نسبتا کم ہے اورعوام کی مذہب اورمذہبی رسومات میں دلچسپی محض رسمی ہے۔مصف کا خصوصی علمی شعبہ نفسیات ہے۔مصنف پیشن گوئی کرتے ہیں کہ عوام کی معاشی خوشحالی اورسماجی تحفظات کی فراہمی ان کامافوق الفطرت قوتوں پرانحصار کم دی گی۔
گذشتہ چار دہائیوں سے مذہبی قوتوں نے سماجی اورسیاسی سٹیٹس کو قائم رکھنے اور مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔1920 کی دہائی میں مسیحی بنیاد پرستی دراصل صنعتی اور تعلیمی ترقی کے جول میں برپا ہونے والی سماجی اورجمہوری سیاسی تبدیلیوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش تھی۔ان تبدیلیوں کی بدولت زیادہ سے زیادہ عورتیں سیاسی اورسماجی میدان میں متحریک ہوئیں اورانھوں نے مذہبی بنیاد پرست قوتوں کو پیچھے دھکیلنے اوردفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
اسلامی بنیاد پرستی کو آیت اللہ خمینی کےاسلامی انقلاب کی شکل میں نئی زندگی ملی تھی۔ یہ ایرانی تیل کی دولت اورمغربی سرمایہ دارممالک کی سامراجی پالیسیوں تھیں جن کی بدولت ایرانی انقلاب ایک حقیقی سماجی جمہوری تبدیلی کی بجائے مذہبی بنیاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ایران کے اسلامی انقلاب نے بہت سے دیگرمسلمان ممالک کے حکمرانوں کو مذہب کواستعمال کرنے ہوئےاقتدارپراپنی گرفت مضبوط اورعوام تحریکوں کو کمزوراورتقسیم کرنے کی راہ دکھائی تھی۔ایران میں شیعہ اسلام اورسعودی عرب میں سلفی اسلام کو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر مغربی ممالک کی تائید و حمایت حاصل تھی تاکہ ان ممالک کے تیل کی سپلائی معطل نہ ہو۔
یہی سلفی اسلام اگر مشرق وسطی میں تیل کی سپلائی کے لئے استعمال کیا جارہا تھا پاکستان کےدینی مدارس میں اس کی تعلیم دے کرجہادی تیار کئے جارہے تھے جو امریکی کے بین الاقوامی مفادات کی خاطرمقدس جنگ کے نام پرسوویت یونین کے خلاف برسرپیرکارتھے۔بھارت میں دلتوں کی مختلف پرتوں اور عورتوں کی ایمپاورمنٹ اورسیاسی اورسماجی حقوق کے لئے جدوجہد نے ہندو درمیانے طبقے کو خوف زدہ کردیا اوربی جے پی اوردوسری ہندو بنیاد پرست تنظیموں نے اس خوف کو اقتدار کے حصول کے لئے کامیابی سےاستعمال کیا۔
مصنف کی اس پیش گوئی کہ بنی نوع انسان دنیاوی مفادات کے حصول کے لئے مذہب کے استعمال سے مستقبل قریب میں کنارہ کشی اخیتار کرلےگی سے ہروہ شخص اتفاق کرے گا جو اس دنیا کو انسان دوستی،برداشت، رواداری اورامن کا گہوارا بنانے کا خواہاں اور مذہب کے نام پرنفرت قاتل و غارت گری اور تفریق سے نالاں ہے۔