کہاں قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد جیسی برگزیدہ ہستیاں اور کہاں منٹو جیسا دو ٹکے کا فحش نگار۔
کہاں سرکاری مطالعہ پاکستان کے آسمان پر چمکتے عظیم اور پاکباز لکھاری اور کہاں ایک شرابی۔
لیکن قدرت اللہ شہاب یا اشفاق احمد کی طرح منٹو نے کبھی کشف و کرامات کی اسیری کا دعویٰ نہیں کیا۔ نہ ہی سرکار سے مشاہرہ لے کر برگزیدگی اور روحانیت کی چادر اوڑھے سرکاری یا ریاستی ایجنڈوں کی ٹاؤٹی کر کے مفادات کا اسیر بنا۔
اس نے تو اپنے اطراف کی نبض پر ہاتھ رکھا اور بنا کسی لگی لپٹی کے معاملات کی کھری تشخیص کر دی۔ لوگوں کو مذہب و معرفت کے نشے کی میٹھی گولیاں دے کر سرکاری اشرافیہ اور عسکری استحصالی قوتوں کی دلالی میں عوام کو دولے شاہ کی چوہی نہیں بنایا، بلکہ انہیں حقیقت پسند بنایا، فکرمند بنایا، دردمند بنایا۔
گندگی کو کارپٹ کے نیچے نہیں چھپایا، بلکہ سامنے لا کھڑا کیا، تاکہ جبلی کمزوریوں اور منفی رویوں کا ایمانداری سے احاطہ ہو اور تدارک کی سبیل نکلے۔ بدلاؤ کی تحریک چلے، نہ کہ دیومالائی بابوں کے من گھڑت کرداروں کے ذریعے عوام کو صبر و استقامت کے بھاشن دیے جائیں، سرکاری سرپرستی میں افیمی کاشنز دیتا بیمار ادب مینوفیکچر کیا جا سکے۔
لوگوں کو ہپناٹائز کر کے استحصالی قوتوں اور جبر کے خلاف کسی ممکنہ عوامی حقوق کی تحریک کی راہیں مسدود کی جا سکیں۔لاکھوں سرکاری اشرافیہ اور عسکری بالادست قوتوں کے استبداد اور عیاشیوں کے باعث کروڑوں عوام کے گرِے ہوے معیارِ زندکی اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کو مشیتِ ربانی قرار دیا جا سکے۔سرکار کی عوامی بہبود کی ذمہ داری صرف خیرات اور مخیر افراد پر ڈالی جا سکے۔
منٹو نے عوام کا استحصال کرتی جونکوں سے معاوضہ و مراعات بٹور کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے لیکچر نہیں دیے اور نہ ہی نکھٹو اور مذہب فروش ملا کو ناگزیر قرار دیا۔ اس نے جو جہاں جیسے دیکھا۔ دردمندی سے بنا کسی لالچ اور خوف کے لکھ دیا۔
خدا کا ایجنڈا تو سماجی انصاف ہے۔ حقیقت شناسی ہے۔ مخلوق کی مساوی فلاح ہے۔ خدا کے ایجنڈے پر تو منٹو نے کام کیا نہ کہ معرفت کی شوگر کوٹنگ میں لپٹے پندرویں صدی کے صلیبی لٹریچر سے بھی زیادہ پسماندہ اور متاثرہ کتابوں اور لیکچرز نے۔
منٹو اپنے دور کا گلوبل شہری تھا، دردمند اور سچا انسان تھا، جسے وقت کے مذہبی و روحانی چورن فروشوں اور ان کے سرپرستوں نے اپنے لیے خطرہ جانا اور آج بھی ایسے لوگ اس سے مخاصمت رکھتے ہیں۔
جو خود کہ قدرت اللہ شہاب یا اشفاق احمد کا پیروکار اور معرفت شناس سمجھتے ہیں، وہ کبھی خدا کو اپنے ساتھ، اپنے دل کی دھڑکنوں میں، من سمندر میں محسوس کر کے اسے انسان سے دوستی، انصاف سے دوستی، سماجی برابری، مساوی ترقی، نیچر سے دوستی، حقیقت پسندی جمہور اور تعمیر کا ذریعہ بنا کر دیکھیں۔
شاید وہ فحش نگار منٹو اور اس کے خدا کو بھی جان جائیں۔
♥