بیرسٹر حمید باشانی
تاشقند پر آج تک بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ اس واضح اور دو ٹوک دستاویز کو ایک پر اسرار دستاویز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کوئی اسے کشمیر پر سودے بازی یا سرنڈر کہتا ہے۔ کوئی اسے پاکستان کی فتح قرار دے دیتا ہے، کوئی اسے بھارت کی شکست۔اور کچھ لوگ یہاں تک جاتے ہیں کہ بھارت کی اس شکست کو وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو معاہدے کے فورا بعد دل کا دورہ پڑنے اور موت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔تاشقند میں سوویت کونسل آف منسٹرز کے چیئرمین الکسی کوسیجن کی مدد سے ساشتری اور ایوب خان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی؟ اس کی طویل تفصیل ہے، اور اس کے ریکارڈ کئی ملکوں کے پاس محفوظ ہیں۔ مگر یہ بات اب اتنی اہم نہیں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس طویل مشق کے بعد دونوں رہنماؤں نے جس دستاویز پر دستخط کیے تھے، وہ کوئی خفیہ دستاویز نہیں تھی اور نہ ہے۔ یہ پاکستان، بھارت، سوویت یونین اور امریکہ کے علاوہ کئی ممالک کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہے، اور الیکٹرانک اور کاغذی اشکال میں موجود ہے۔ چونکہ یہاں میری توجہ کا نقطہ ماسکہ صرف ڈی کلاسیفائڈ ہونے والی وہ امریکی دستاویزات ہیں ، جن کے ذریعے اس دور میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی عالمی سفارت کاری پر روشنی پڑتی ہے، اس لیے میں یہاں ان ہی سفارتی دستاویزات کا مختصر حوالہ دے رہا ہوں ، اور ان کا سوویت ، پاکستانی اور بھارتی دستاویزات کے ساتھ تقابلی جائزہ بھی لے رہا ہوں، تاکہ کسی غلطی کا احتمال باقی نہ رہے۔ معاہدہ تاشقند کا خلاصہ امریکی نیشنل آرکائیوز کے فارن ریلیشنز کے جنوبی ایشیا پر محفوظ کردہ دستاویزات میں موجود ہے۔ اس آرکائیو میں محفوظ ایڈیٹوریل نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ
“صدر ایوب اور وزیر اعظم شاستری نے چار جنوری سے دس جنوری 1966 کو سوویت یونین کے شہر تاشقند میں ملاقات کی۔ ان کی ملاقات اس تنازعہ پر بات چیت کرنے کے لیے تھی، جو حال ہی میں دیرینہ تنازعہ کشمیر سے پیدا ہوا تھا۔ سوویت رہنما کوسیجن نے اس معاہدے کو آگے بڑھانے میں بات چیت کے دوران ایک فعال کردار ادا کیا، جس پر دس جنوری کو دستخط کیے گئے۔ “تاشقند اعلامیہ” کی شرائط کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان نے دونوں ممالک کے تمام مسلح اہلکاروں کی پانچ اگست1965سے پہلے والی پوزیشنوں پر مکمل واپسی پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنی ذمہ داری کا اعادہ کیا کہ ” دونوں ممالک طاقت کا سہارا نہیں لیں گے اور اپنے تنازعات کو پرامن طریقوں سے حل کریں گے” ۔
اس بیان کے پس منظر میں، کشمیر پر تبادلہ خیال کیا گیا،جس میں ہر فریق نے “اپنا اپنا موقف پیش کیا۔” دونوں ممالک نے “معمول اور پرامن تعلقات کی بحالی کے پختہ عزم کا اظہار کیا” بشمول جنگی قیدیوں کی واپسی، معمول کے سفارتی تعلقات کی بحالی، اقتصادی، تجارتی، مواصلاتی اور ثقافتی تعلقات کی بحالی کے لیے اقدامات پر غور، اور “حوصلہ افزائی“،اور ایک دوسرے کے خلاف منفی پراپگنڈہ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا عزم کیا ۔
معاہدہ تاشقند پر ایوب خان کے اصل رد عمل کو حسب سابق امریکی سفیر و الٹر پیٹرک میکانی نے اپنے ٹیلی گرام میں قلم بند کیا، جو انہوں نے اٹھارہ جنوری کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیا۔ میکانی لکھتے ہیں کہ میں نے اٹھارہ جنوری کو صدر ایوب سے ملاقات کے دوران انہیں بتایا کہ صدر جانسن اور سیکریٹری رسک نے مجھے ہدایت کی ہے کہ تاشقند معاہدہ کرنے پر ایوب کی اعلی مدبرانہ صلاحیتوں کی تعریف کروں۔ میں نے ایوب کو مزید بتایا کہ مجھے یہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ امریکہ تاشقند سے ہونے والی پیش رفت کو دلچسپی اور ہمدردی کے ساتھ پیروی کرے گا، اور وہ مفاہمت کے راستے پر چلنے کے لیے مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
صدر ایوب نے کہا کہ وزیر اعظم شاستری کو ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے امن کی ضرورت کا احساس تھا، اور ایوب کے خیال میں شاستری کو کشمیر کے تنازعہ کے حل کی ضرورت کا بھی احساس تھا۔ ایوب کے مطابق، تاشقند میں شاستری نے ابتدائی طور پر 23 ستمبر کی جنگ بندی لائن کو منجمد کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن ایوب نے اصولی طور پر اس کی مخالفت کی تھی۔ یہاں ایوب نے کہا کہ روسی ہندوستان کو معقول سمت میں لے جانے میں مدد گار تھے۔ ایوب نے زور دیا کہ امریکہ بھی ہندوستان کو ساتھ لانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے صدر جانسن کے ساتھ اتفاق کیا کہ ہندوستان کو کسی فیصلے پر مجبور کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس کے باوجود، انہوں نے کہا، امریکہ کو کردار ادا کرنا ہے، اور ہندوستان پر اس کا اثر و رسوخ تاشقند کے جذبے کو مضبوط کر سکتا ہے۔۔ایوب نے کہا کہ کوسیجین نے تاشقند میں دن رات کام کیا ۔ ایوب کے مطابق تاشقند معاہدے میں روسیوں کا بڑا کردار تھا۔ مثال کے طور پر، انہوں نے کہا، بالکل آخر میں ہندوستان نے اعلان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے پر زور دیا تھا،لیکن اس میں دیگر معاملات کی طرح کوسیجن تعمیری اثر و رسوخ استعمال کر کے شاستری کو سمجھانے میں کامیاب رہے تھے۔ ایوب کا تاثر تھا کہ کوسیجن بڑا معقول آدمی ہے ،اور دلائل سننے کے لیے کھلا ذہن رکھتا ہے۔
میں نے ریمارکس دیئے کہ تاشقند اعلامیہ میں طاقت کے استعمال نہ کرنے کا بیان اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تھا، اور پیش گوئی کی تھی کہ پاکستانی عوام یقیناً اس کی وجہ سمجھ جائیں گے۔ ایوب نے اتفاق کیا کہ پاکستانی عوام تاشقند اعلامیہ کو سمجھیں گے، اور یقین کرِیں گے کہ ایوب خان کسی بھی صورت میں پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اگر عوام کسی اور کو چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں‘‘ ۔
میں نے یہ افسوسناک ستم ظریفی کا مشاہدہ کیا کہ جب بھی پاکستان کسی ہندوستانی لیڈر کے ساتھ امن کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ہندوستانی لیڈر کی موت واقع ہو جاتی ہے، جیسا کہ موہن داس کرم چند گاندھی، نہرو اور اب شاستری کا معاملہ ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا تاشقند میں شاستری کے ساتھ کوئی نجی سمجھوتہ ہوا تھا۔ ایوب نے کہا کہ تاشقند اعلامیہ پر دستخط کے بعد شاستری کو راحت محسوس ہوئی تھی۔ پرائیویٹ لنچ کے بعد شاستری نے ان سے مشورہ دیا تھا کہ دونوں فریقوں کو ایسے واضح اقدامات کرنے چاہیے، جن کا اثر واضح ہو، جیسے کہ انخلا پر پاک بھارت فوجی لیڈروں کی ملاقاتیں، ہائی کمشنرز کا فوری تبادلہ، ہوائی راہداری کی بحالی، اور دوسرے اقدامات شامل ہیں۔
شاستری کی موت کے بعد ایوب خان نے کہا کہ اس نے فوری طور پر شاستری کے مشیروں کو بلایا اور ان کو وہ بتایا، جو شاستری نے انہیں نجی طور پر بتایا تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ معاہدہ تاشقند تو ہو گیا تھا، لیکن ایوب خان کے اطمینان اور شاستری کی راحت کے باوجود ابھی معاہدہ تاشقند کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شکوہ شکایات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ان شکایات میں بھی کشمیر ایک بار پھر سر فہرست تھا، لیکن اب کوئی اس پر سنجیدگی سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ معاہدے کے فورا بعد ایوب خان نے جانسن کو خط لکھ کر مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی کوشش کی۔ جانسن نے جواب میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کیے بغیر معاہدے کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔
اگلی بار اگر مسئلہ کشمیر کا کہیں سنجیدگی سے ذکر ہوا تو وہ شملہ تھا، جس کا احوال آئندہ ان سطور میں بیان کیا جائے گا۔
♣