اختر خان
جولائی 2008 میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجیک سٹڈیز اسلام آباد میں بطور ریسرچ فیلو میرا اخری مہینہ تھا۔ فروری 2008 میں الیکشن کے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجیک سٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل شیرین مزاری کو ہٹایا اور بےنظیر بھٹو کے پہلے دور میں خارجہ سیکرٹری رہنے والے تنویر احمد خان کو ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا۔
میں جتنا عرصہ شیرین مزاری کے ماتحت رہا مجھے شیرین مزاری کی ذہنیت، بیت اللہ محسود کی اور جنرل حمید گل کی ذہنیت میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ اسی مہینے تنویر احمد خان کے ساتھ سابقہ فاٹا میں طالبان اور ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ اور افغانستان پر کئی مرتبہ بحث کی۔ ایک بحث کے دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ اپ کے مطابق فاٹا میں کیا مسئلہ ہے، میں نے جواب دیا کہ مسئلہ فاٹا میں نہیں بلکہ پاکستان کے تزویراتی طبقے یعنی سٹریٹجک کمیونٹی کے مائنڈسیٹ کا ہے۔ جو پشتون قوم کے مذہبی طبقے اور قوم پرست طبقے کے سیاسی اختلافات کو جمہوری طرز سے نہیں بلکہ طاقت اور خانہ جنگی کے زریعے حل کرنا چاہتی ہے۔
تنویر احمد خان نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں ساتھ ہی کہہ ڈالا کہ
” what if these rag tag taliban mlitia defeat America the way soviets were defeated by Mujahideen”۔۔۔
تو میں نے ان کو جواب دیا کہ فرض کر لیں طالبان امریکہ کو شکست دے دیتے ہیں اور دوبارہ سے اپنا امیرالمومنین بنا لیتے ہیں اور ان کے سمجھ بوجھ والی شریعت اور خلافت قائم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کیا ہوگا۔ کیا طالبان اسی شریعت اور خلافت کا دائرہ کار پاکستان تک وسیع کر لیں گے۔ اور اگر ایسا کرتے ہیں تو کیا پاکستان ان کے شریعت اور خلافت کو قبول کر لے گا۔
کیا پاکستان کا مذہبی طبقہ طالبان کے شرعی خلافتی حیثیت کے پاکستان تک دائرہ کار کو بڑھانے میں ان کا ساتھ دیں گے۔ اور اگر ایسا کرتے ہیں تو کیا ریاست پاکستان کا جمہوری اسلامی نظام اور اس پر قابض اشرافیہ ان کے اس موقف کی تائید کر لیں گے۔ کیا روس چین ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک طالبان کے شرعی خلافت کے نظام کو تسلیم کر لیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
تنویر احمد خان نے جواب دیا کہ پاکستان نے خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کے محاذ پر کافی غلطیاں کی ہیں جن میں اب پھنس چکا ہے اور یہ کہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن ہی نہیں بچا ۔بجائے اس کے کہ طالبان کی حمایت کی جائے اور بزور طالبانی طاقت اور قوت کے افغانستان کو پاکستانی سامراجی پنجے میں جکڑے ہوئے رکھا جائے۔
تنویر احمد خان کا موقف جنرل ضیاء کے آئی ایس ائی کے سربراہ اختر عبدالرحمن کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے اور یہ پالیسی یہ ہے کہ کابل اور قندہار میں اس وقت تک خانہ جنگی برقرار رکھی جائے جب تک افغانستان پاکستان کا باضابطہ پانچواں صوبہ نہیں بن جاتا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی یہ پالیسی پاکستانی اشرافیہ کی نہیں بلکہ برطانیہ کی تھی۔ جس کے تحت افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اور یہ کہ افغانستان ان پشتون علاقوں سے دستبردار ہو جس کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے افغانستان سے چھیننے کے بعد برطانوی ہندوستان میں شامل کیا۔
گو کہ افغانستان نے 1919 میں اپنی خارجہ پالیسی کو برطانوی تسلط سے آزاد کرایا لیکن عملاً افغانستان برطانیہ کے علاقائی نظم اور نظام کے زیر اہتمام تھا۔ 1947 میں جب پاکستان بنا تو افغانستان نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ یہ ان پشتون علاقوں پر بنا ہوا ہے جو کسی زمانے میں افغانستان کا حصہ تھے۔ یعنی افغانستان نے برطانیہ کے قائم کردہ علاقائی ریاستی انتظام کو چیلنج کیا۔ جس کے تحت اس خطے میں نئی ریاستیں وقوع پذیر ہوئیں۔
پاکستان برطانیہ روس امریکہ سمیت کسی بھی ملک نے افغانستان کی اس پالیسی کی تائید نہیں کی بلکہ مخالفت کی۔ افغانستان کے پاس نہ تو خود اتنی فوجی طاقت تھی اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی یا علاقائی طاقت ان کے موقف کا اس حد تک تائیدی بن رہا تھا کہ پاکستان سے ان پشتون علاقوں کو چھین لیتا۔ جو انگریزوں نے افغانستان سے قبضہ کئے تھے۔ تب سے افغانستان کا حکمران اشرافیہ اور چند ممالک جیسے بھارت اور روس وقتاً فوقتاً پاکستان کو تنگ کرنے کے لئے یا اس کا ہاتھ مروڑنے کے لئے ان پشتون علاقوں پر دعویداری کا حق سامنے لے آتے تھے اور اس مقصد کے لئے پاکستان کے اندر قوم پرست پشتونوں کے ساتھ ربط بڑھا لیتے تھے۔
جبکہ پاکستان برطانیہ، امریکہ اور سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ مل کر پشتون قوم کے اندر مذہبی طبقات کو ان قوم پرست پشتونوں کے خلاف سامنے لے آتے تھے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ خونریز کھینچا تانی سات دہائیوں سے جاری ہے جس میں پاکستان کو فوقیت حاصل ہے۔ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے جہاں جدید ریاستی نظم اور نظام موجود نہیں جبکہ پاکستان برطانیہ کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بنائے ہوئے انتظامی ڈھانچے اور ذہنیت کا وارث ہے۔ جس کے باعث پاکستان کو افغانستان پر برتری حاصل ہے۔
پاکستان کے موقف کی تائید کرنے والا پشتون قوم کا یہ مذہبی طبقہ ایک ارتقائی عمل سے گزر کر نوے کی دہائی میں طالبان کی شکل اختیار کر گیا۔ دو سال قبل میں نے ملا عمر کے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک قریبی ساتھی سے پوچھا کہ تم لوگ یعنی افغان طالبان جو مذاکرات امریکہ سے کر رہے ہو یہ آزاد حیثیت میں کر رہے ہو یا پاکستان کی ایماء پر کر رہے ہو تو انہوں نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ افغان طالبان پاکستان کی حمایت اور مدد کے بغیر بھوسے کا ڈھیر ہے۔ لیکن ایک بات اور ہے کہ پاکستان افغانستان اور وہاں پر طالبان کی حکومت لانے کے بارے میں جو پالیسی رکھتا ہے، اگر اس پالیسی سے پاکستان اب پیچھے ہٹتا ہے تو پاکستان اپنے وجود کے برقرار رکھنے کا جواز کھو بیٹھے گا۔
گفتگو کے دوران ملا عمر کے ساتھی نے مجھ سے کہا کہ اس ساری صورتحال کا متبادل کیا ہو سکتا ہے کیا ہم لوئی افغانستان بنانے کی طرف مائل ہو جائیں؟ کیا بندہ ان سیکولر مذہب بیزار پشتون قوم پرستوں کے ساتھ موافقت کی طرف بڑھے؟ جب وہ یہ باتیں کرنے لگا تو میں نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا مجھے پاکستان میں افغان طالبان کے سفیر ملا ضعیف کی سوانح حیات یاد آئی جس میں وہ پاکستان کو اپنا بڑا لیکن قاتل بھائی کہتا ہے۔ اور ایسے لگا کہ ملا عمر کا ساتھی افغان طالبان اور افغانستان پر پاکستان کے سامراجی نوآبادیاتی قبضہ گیر پالیسی سے سخت نالاں ہے لیکن اس سے نکلنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔
اور یہ کہ پشتون قوم کا مذہبی طبقہ پشتون قوم کے اندر پشتون قوم پرستوں سے اتنی زیادہ نفرت کرتے ہیں کہ وہ ان قوم پرستوں کو گلے لگانے ان کے ساتھ سیاسی حلیف بننے کے بجائے پاکستان کے سامراجی نوآبادیاتی قبضہ گیر پالیسی کے آلہ کار بننے کو بہتر آپشن سمجھتے ہیں اور یہی پشتون قوم کے اندر کئی دہائیوں سے ہونے والی خونریزی کی بنیادی وجہ ہے۔
♠