بیرسٹرحمید باشانی
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ مئی 1964 میں شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے دوران اچانک ایک ایسا واقعہ ہوا، جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ایجنڈے سے اتر کر پس منظر میں چلا گیا۔ یہ واقعہ پنڈت جواہر لال نہرو کی اچانک موت تھی۔ پنڈت نہرو کی موت اگرچہ غیر متوقع نہیں تھی۔ وہ پانچ ماہ سے سخت علیل تھے۔ اس علالت کے دوران انہوں نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے حل کی کوشش کی، جو ان کی رائے میں ان کی موت کے بعد حل ہونا مشکل تھا۔ نہرو جوں جوں موت کے قریب ہوتے جا رہے تھے، ان کے قریبی رفقا ان کو بتا رہے تھے کہ وہ آئندہ نسل کے لیے چین اور پاکستان سے بیک وقت دشمنی کا ورثہ چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ان کے نام ان کے ایک خفیہ دوست کا خط بہت مشہور ہوا، جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ پنڈت نہرو نے اپنی موت سے پہلے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا۔ نہرو نے اس خفیہ دوست کا نام کبھی ظاہر نہیں کیا، تاہم انہوں نے اپنے رفقا کو اس خط کے مندر جات پڑھ کر سنائے۔ اس خط کو اس وقت خفیہ رکھا گیا۔ نہرو کی موت کے کئی سال بعد ان کے اس وقت کے سیکریٹری برائے دولت مشترکہ، اور بعد میں سیکریٹری خارجہ وائی ڈی گنڈیویا نے اپنی کتاب میں اس خط کا انکشاف کیا۔
خط میں نہرو کے دوست نے انکو مشورہ دیا کہ وہ چین اور کشمیر کے مسائل آنے والے لیڈروں پر مت چھوڑیں، بلکہ ان میں سے سے کم ازکم ایک مسئلہ اپنی زندگی میں حل کریں۔ اس پر نہرو نے کشمیر سازش کیس ختم کرنے اور شیخ عبداللہ کو آزاد کر کہ ثالث مقرر کرنے کا اعلان کیا، جس کی بدولت عبداللہ اس وقت پاکستان میں تھے۔ لیکن نہرو کی اچانک موت کی وجہ سے شیخ عبداللہ کو اپنا مشن ادھورا چھوڑ کر فورا دلی روانہ ہونا پڑا۔ یہ مسئلہ کشمیر کے لیے ایک افسوسناک بات تھی۔ شیخ عبداللہ کا دورہ بظاہر کامیاب جا رہا تھا۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کر دیا تھا کہ جون میں نہرو عبداللہ ملاقات میں کشمیر کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔
نہرو کی اچانک موت نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پورا ہندوستان صدمے کی کیفیت میں چلا گیا تھا۔ پاکستان کے رہنماؤں نے بھی صدمے اور افسوس کا اظہار کیا۔ پاکستانی ریاست نے سرکاری طور پر سوگ کا اعلان کیا۔ پاکستانی پروٹوکول سے ہٹ کر سرکاری پرچم کو ہاف ماسٹ پر لہرایا گیا۔ میڈیا پر بھی بہت بڑا رد عمل ہوا۔دوسرے دن تمام پاکستانی اخبارات کی شہ سرخیاں نہرو کی موت پر تھیں۔ اکثر اخبارات میں اداریے لکھے گئے، جن میں نہرو کی زندگی اور جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی۔ ستائیس مئی کو شِخ عبداللہ نے مظفر آباد جانا تھا۔ ان کے دورے کی کوریج کے لیے مری میں بھارتی پریس کے نمائندے ٹھہرے ہوئے تھے۔
ان نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے قومی ترانےکے خالق اور بڑے شاعر حفیظ جالندھری نے کہا ” تم لوگوں کے پاس نہرو جیسا لیڈر تھا اس لیے تم لوگ ہم سے برتر محسوس کر رہے تھے۔ ہماری بد قسمتی یہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی کی موت کے بعد ہمارے پاس کوئی رہنما نہیں تھا۔ اب نہرو کے چلے جانے سے آپ لوگ بھی ہماری سطح پر آگئے ہیں، اور اب ہم آپ لوگوں کو دیکھ لیں گے۔
پنڈت نہرو کے بعد لال بہادر شاستری کو وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔ ان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے فورا بعد امریکی صدر لنڈن جانسن نے ان کو دورہ امریکہ کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔ مگر بعد میں ایسے واقعات ہوئے کہ امریکہ نے یہ دورہ منسوخ کر دیا، اور ان کا یہ دورہ کبھی نہ ہو سکا۔ تاہم مسئلہ کشمیر پر جو پالیسی شاستری نے اختیار کی اس کو امریکہ نے تعمیری قرار دیا۔ شاستری نے آل انڈیا ریڈیو پر اپنی تقریر میں اپنی پالیسی واضح کی۔ یہ تقریر بارہ جون1964 کے نیو یارک ٹائمز نے شائع کی۔
اس تقریر میں اس نے صدر ایوب کی اس اپیل کا جواب دیا، جو انہوں نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے کی تھی۔ ایوب خان نے نہرو کی موت پر ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کے خاتمے اور دوستی کی اپیل کی ۔ انہوں نے بھارت سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر ایک تازہ نظر ڈالے۔ انہوں نے نہرو کی موت پر افسوس کرتے ہوئے کہ اس طرح کا واقعہ ہمیں ان حالات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے، جن کی وجہ سے سترہ سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے عوام کی زندگی میں مصائب کے علاوہ ہمارا جانی اور مالی نقصان ہوا۔ پنڈت نہرو کی موت عظیم نقصان ہے، اور ہمیں بھارت کے اس عظیم نقصان پر افسوس ہے۔ اور ہم بھارتی عوام کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ بھارت کی نئی لیڈر شپ کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ باہمی تعلقات پر نئی نظر ڈالیں۔ ہم بھارت کی طرف سے ہر قسم کی مخلص کوشش کا مثبت جواب دیں گے۔
ایوب خان کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ وہ پنڈت نہرو کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے دلی میں تھے، جہاں انہوں نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک عظیم سیاست دان اور مدبر سے محروم ہوگیا ہے۔ جواب میں بھارت کے نئے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کہ کہا کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان افسوسناک تعلقات کی لہر کا رخ موڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے صدر ایوب خان کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے ریڈیو پاکستان پر کی گئی ۔اپیل میں دانش اور سمجھداری ہے، اور یہ اپیل بہت ہی مناسب وقت پر کی گئی ہے۔ لیکن اس کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی شیخ عبداللہ کا اعلان بھی سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ جولائی میں لندن میں ہونے والی کامن ویلتھ کانفرنس میں شرکت کی امید رکھتے ہیں جہاں شاستری اور ایوب خان کے درمیان ملاقات ہوگی۔
لیکن شاستری اور ایوب خان کی ملاقات ان حیثیتوں میں پہلی بار اکتوبر میں کراچی میں ہوئی، جہاں انہوں نے جنوبی ایشیا میں قیام امن کے امکانات پر بات چیت کی۔ پانچ گھنٹے کی بات چیت کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی ضرورت ہے۔ اور اس مقصد کے لیے باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے تمام مسائل کا باعزت حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
لیکن ایوب شاستری اس ملاقات کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ دونوں لیڈروں کے خوش کن اعلانات اور نیک خواہشات کے اظہار کے باوجود پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آئی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں کے باہم تعلقات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ اس طرح سال 1964کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت ایک ہنگامہ خیز دور میں داخل ہوئے، جس نے دونوں ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ حالات اتنے ہنگامہ خیز تھے کہ مسئلہ کشمیر ان کے نیچے دب کر رہ گیا۔ دونوں ملک ایک طرح کے “رولر کوسٹر” پر سوار ہو گئے، جس کا احوال آئندہ بیان کیا جائے گا۔
♣