بیرسٹرحمید باشانی
گزشتہ دنوں ان ہی سطور میں عرض کیا تھا کہ بائیس ستمبر 1965 کا دن ایک بڑے فیصلے کا دن تھا۔صرف کشمیری عوام ہی نہیں، چین، سویت یونین، امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت دنیا یہ جاننا چاہتی تھی کہ پاکستان اور بھارت اس دن جنگ بندی کی “ڈیڈ لائن ” پر کیا فیصلہ کرنے والے ہیں ۔ ایوب خان کو امریکہ کی طرف سے واشگاف انداز میں بتا دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے بائیس ستمبر کو جنگ بندی کی قرارداد قبول نہ کی، تو اس سے عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے، اور دنیا ان کو اس کی ذمہ دار قرار دے گی۔
امریکی سفیر والٹر پیٹرک میکانی ان کو کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر بتا چکے تھے کہ جنگ بندی کو قبول کرنے میں ناکامی کے بعد ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کی حکومت کیسے باقی رہے گی ؟ چنانچہ ایوب خان کے پاس دو راستے تھے۔ایک تو یہ کہ وہ جنگ بندی کی قرارداد تسلیم کر لیں۔ دوسرا یہ کہ وہ ذولفقار علی بھٹو کے مشورے کے مطابق چینی کارڈ کھیلیں۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ حکمران اشرافیہ میں پھوٹ پڑنی شروع ہوچکی تھی۔ ایوب خان بھٹو کے خیالات کو ‘ریڈیکل” قرار دے چکے تھے۔
اس بات کا اظہار امریکی سفیر میکانی کے ان ٹیلی گرامز سے ہوتا ہے، جو اس نے ایوب خان کے بہت قریبی شخص اور وزیر خزانہ محمد شعیب کے ساتھ اپنی ایک خفیہ اور ایک نیم خفیہ ملاقاتوں کے بعد راول پنڈی سے واشنگٹن کو ارسال کیں۔ میکانی نے لکھا کہ شعیب نے مجھے بتایا ہے کہ ایوب خان کا خیال ہے کہ بھٹو انتہا پسند لائن اختیار کر رہے ہیں، لیکن ایوب خان چین کی مدد نہیں لینا چاہتا۔ اس نے شعیب کو بتایا ہے کہ وہ چین کی گود میں نہیں بیٹھنا چاہتا، لیکن اس کے لیے اسے پاکستان کی حمایت میں اور بھارت کے خلاف امریکہ کی طرف سے ایک واضح بیان چاہیے ہوگا، جس میں اس بات کا اشارہ موجود ہو کہ65 کی جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار بھارت ہے، اور امریکہ مسئلہ کشمیر پر مستقبل میں پاکستان کی حمایت کرے گا۔
ایوب خان نے اس بات پر پوارا یقین کر لیا تھا کہ دنیا ان کو تیسری عالمی جنگ کی ذمہ دار قرار دے کر سزا دے گی۔ اس سلسلے میں وہ دوسری اور تیسری عالمی جنگ کے دوران کچھ لیڈروں کے عبرت ناک انجام کو دیکھ چکے تھے۔ اس لیے وہ چینیوں سے کہہ چکے تھے کہ وہ اپنے آپ کو اس معاملے سے دور ہی رکھیں تو بہتر ہے۔
دوسری طرف بھارت کی یہ صورت حال تھی کہ وہ پہلے ہی سولہ ستمبر کو امریکی صدر کے نام خط میں جنگ بندی کی قرار داد کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکا تھا۔ چین بھارت کو سرحد کے پار سے فوجی تعمیرات ہٹانے، مویشی اور قیدی واپس کرنے کا الٹی میٹم دے چکا تھا۔ بھارت اس بات پر یقین کر چکا تھا کہ چین فوجی کاروائی کرے گا، جس کے رد عمل میں امریکہ بھارت کی مدد کرے گا، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ سوویت یونین کو نا گزیر طور پر جنگ میں کودنا پڑے گا۔ اس صورت حال میں تیسری جنگ عظیم ناگزیر ہو گی۔ روس چین اور امریکہ ماسکو نواز، چین نواز کمیونسٹوں اور امریکہ نواز سیاست دانوں کے ذریعے برصغیر میں اپنے اپنے اثر وروسوخ کا استعمال کریں گے، جس کے نتائج پر بھارت کی حکمران اشرافیہ کا کوئی کنٹرول نہیں رہے گا۔
اس سے ایک مسئلہ کشمیر کی جگہ کئی قومی آزادی کے سوال کھڑے ہو جائیں گے، اور برصغیر کے حصے بخرے ہو سکتے ہیں۔ چین کو بھی روس اور امریکہ دونوں بتا چکے تھے کہ اس کا ڈید لائن پربھارت کے خلاف فوجی ایکشن تیسری عالمی جنگ پر منتج ہو گا، اور اس کا مقابلہ چین اور روس مل کر سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں بائیس ستمبر کی رات کو ڈیڈ لائن کا وقت ختم ہونے سے تھوڑا پہلے پاکستان نے ڈرامائی انداز میں جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔پاکستان نے کوئی شرط نہیں رکھی ، البتہ ذولفقار علی بھٹو نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی تسلیم کر کے پاکستان اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر پر کچھ کرنے کا ایک اور موقع دیتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ نے اب بھی کچھ نہ کیا تو پاکستان اقوم متحدہ سے باہر نکل جائے گا۔ بھٹو کی دھمکی کافی سخت تھی،لیکن جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق تھا تو سفارتی سطح پر یہ بات واضح تھی کہ ایوب خان، اور ذولفقار علی بھٹو نے مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیر میں رائے شماری پر مسلسل اصرار کے بعد بالآخر غیر مشروط جنگ بندی پر اتفاق کر لیا تھا۔
دوسری طرف چین نے ہندوستان کے خلاف کوئی کاروائی کیے بغیر اپنی” ڈیڈ لائن” کو گزرنے دیا ۔ اس کے بجائے، بائیس ستمبر کو ہی” پیپلز ڈیلی” کے ایک مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ بیجنگ کے الٹی میٹم نے ہندوستانیوں کو اس کے مطالبے کی تعمیل کرنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ سرحد کے چین کی جانب اپنے “فوجی کام” کو تباہ کر دیں۔ مضمون میں بھارت کے خلاف فوجی کاروائی کے خطرے کو کھلا رکھنے کی بات کی گئی ،اور کہا گیا کہ ابھی کچھ دیگر مطالبات پورے ہونے باقی ہیں، جن میں کچھ مویشیوں اور مبینہ طور پر اغوا کیے گئے سرحدی باشندوں کی واپسی باقی ہے، اور اس لیے، “معاملہ ختم ہونے سے بہت دور ہے، اور بھارت کے ساتھ حساب کتاب طے کرنا ابھی باقی ہے“۔
جنگ بندی کے اعلان کے بعد خدشات کے بر عکس ایوب خان کو عوام کی طرف سے کسی قسم کے پر تشدد رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میڈیا میں اکیس دن کے دوران جو ہیجان برپا کیا گیا تھا، اس کو ایوب خان نے قابو کر لیا۔ اس پورے سلسلہ عمل میں امریکی دلچسپی یہ تھی کہ اس میں کسی طرح سوویت یونین یا اس کے ذریعے کمیونسٹ عنصر نہ داخل ہو جائے۔ بعد میں دلچسپی کا مرکزی نقطہ کمیونسٹ چین بن گیا، جس کے خلاف امریکہ اور سوویت یونین کا مفاد جنگ بندی پر یکجا ہو گیا۔
چین کی مداخلت کے خدشے کے پیش نظر دونوں نے ” سٹک اور کیرٹ ” کے استعمال سے پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی پر راضی کر لیا۔ کشمیر کا مسئلہ وہاں کا وہاں ہی رہا۔ اگلا مرحلہ سوویت یونین ثالثی کا آغاز تھا۔ یہاں حالات نے اس وقت ڈرامائی شکل اختیار کر لی، جب سوویت یونین کی ثالثی پر پاکستان اور بھارت دونوں کے تحفظات کے باوجود امریکیوں نے اس کی حمایت کی۔ ایوب خان نے والٹر مکانی کو بتایا کہ ثالثی کرانا امریکہ کا حق ہے، چونکہ اس نے ثالثی کا آغاز کیا تھا، لال بہادر شاستری نے سوویت یونین کی ثالثی کی پیشکش کو قبول کرنے سے پہلے امریکہ سے تحریری اجازت مانگی، اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کی کہ روسی ثالثی میں امریکی رضامندی شامل ہے۔
چنانچہ امریکی رضامندی سے معاہدہ تاشقند ہوا، جس میں بنیادی اور کلیدی کردار سوویت رہنما الیکسی کوسیجن نے ادا کیا۔معاہدے پر بھارت میں شدید تنقید ہوئی کیوں کہ اس میں کشمیر میں گور یلا کاروائیوں کی مذمت یا مستقبل کی جنگوں کے بارے میں کچھ نہیں تھا، پاکستان میں اس پر تنقید کی وجہ یہ تھی کہ اس میں کشمیر کے مسئلے کے حل یا رائے شماری کے بارے میں کوئی شق شامل نہیں تھی۔ اس طرح مسئلہ کشمیر ایک نازک ترین موڑ پر آ کر ایک بار پھر پس منظر میں چلا گیا۔ کشمیر پر عالمی ڈپلومیسی کی یہ کہانی جاری ہے، جس کا بیان وقتاً فوقتا جاری رہے گا۔
♠