مہرجان
سماجی شعور میں بھی شناخت کی اہمیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ، سماج میں انسان اپنی شناخت و خودمختاری کے لیے مسلسل جہد کے ساتھ برسر پیکار ہے یہ شناخت کی وہی جنگ ہے جس کی وضاحت ھیگل نے آقا و غلام کی جدلیات میں کی ہے کہ کیسے ایک انسان اپنی شناخت کے لئے موت تک کا خطرہ مول لیتا ہے ، اوراس شناخت کو ھیگل آزادی وخودمختاری کہتا ہے کہ کس طرح کوئی انسان اپنی شناخت و خود مختاری کو دوسرے (ادر) سےمنوا لیتا ہے ۔
سماج میں یہ جنگ وہاں پر بھی جاری و ساری ہے جہاں اقتصادیات و جنس جیسا کوئی قابلِ ذکر مسئلہ موجود نہیں رہتا جس کی طرف ایرک فرام کے تناظر میں پہلے وضاحت کی جا چکی ہے ، یہ کشمکش (شناخت کی جنگ) سماجی شعور کی آخری بلندی پہ جاکر ختم ہوجاتی ہے جسے ھیگل (حتمی ) ایبسلوٹ اسپرٹ کہتا ہے لیکن اسی کشمش میں فردی شناخت جب گروہ کی صورت فطری طور پہ گروہی شناخت اختیار کرلیں ، اور وہ گروہ اپنی شناخت یعنی وجود کو کسی دوسرے طاقتور گروہ (وجود )سے منوا نہ لیں تو یہ گُروہ اک محکوم قوم کی صورت تاریخ میں سامنے آتا ہے ۔جبکہ طاقتور گروہ حاکم قوم کی صورت اک کالونائزر کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اب سماج میں وہ جنگ جو فرد کی صورت میں جاری و ساری تھی قومی جہد میں بدل میں چکی ہوتی ہے ،یہاں آکر محکوم اقوام کو دو جنگوں کا بیک وقت سامنا ہوتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کونسی جنگ کسی محکوم قوم کے افراد پہ فرض ہوتی ہیں، حاکم قوم کی اجارہ داری کی یلغار پولیٹیکل و سول سوسائٹی کے تناظر میں اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ اگر محکوم بطور قوم اس یلغار کو روک نہ پایا تو اس کا قومی وجود ہی ختم ہوجاتا ہے ۔
اگر اسکے برعکس وہ قومی شعور سے لیس ہوکر کالونائزر کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو اس کا قومی شعور جو اس مزاحمت کے دوران پنپ رہا ہوتا ہے ، اپنے سماج کے اندر کی جنگ کو قومی شعور کی بڑھوتری کے عمل میں کاؤنٹر کررہا ہوتا ہے اب اس کے قومی وجود کا ہونا ہی اس کے اپنے وجود ہونے کا مترادف ہوگا ۔ قومی جہد میں سماجی جہد کا ایک جدلیاتی تعلق بنتا جارہا ہے۔یعنی قومی شعور کی بدولت سماجی شعور بھی پنپ رہا ہوتا ہے۔
قومی شعور کو سماجی شعور میں بدلنے کے عمل کو لینن نے “جذب” ہونے کا نام دیا ہے جو انٹرنیشنل ازم کا مرحلہ ہے ، لیکن چونکہ یہ ایک مکمل تاریخی عمل کے ساتھ جُڑا ہوا ہے تو بغیر اول الذکر کے شعور کے اور اسکا تاریخی سفر مکمل ہونے کے دوسرا اسی طرح نامکمل اور تھوڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتا ہے جیسا کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت اور سرمایہ دار یورپ کے مختلف اقوام کا ریفرنڈم کے ذریعے قومی شناخت کے سوال کا ابھرنا واضح مثالیں ہیں۔
اس امر میں کوئی شک نہیں جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ قومی شعور کا ابتدائی سفر نعرہ بازی و شہری حقوق و جیسے مطالبات سے شروع ہوتا ہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری کے امکانات آتے رہتے ہیں اب نعرہ ازم اک مضبوط مقصدیت میں بدل جاتا ہے ،کوئی بھی قیادت جب قومی شعور سے لیس ہوکر بات کرتی ہے تو اس کے سامنے اک واضح قومی حکمت عملی موجود ہوتی ہے وہ اب فقط نعروں کی بنیاد پہ قوم میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی بلکہ اب جذبات پہ عقل اور نعروں پہ مقصد حاوی ہونا شروع ہوجاتاہے ۔
قیادت کا ہر قدم قومی مفاد کے ماتحت ہوتا ہے وہ ہر طبقہ کو ساتھ ملاکر قومی جہد کو دوام بخشنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ ریاستی اجارہ داری کے سامنے اک مضبوط دیوار بنے ، جس کی کوشش بابا مری نے کی کہ ہر طبقہ کو ساتھ ملا کر بلوچ قومی جہد کو طفلانہ اسٹیج سے آگے کی طرف رواں دواں کرکے اس قوم کو کان، آنکھ اور زبان دی ۔بلاشبہ وہ بلوچ قومی جہد میں ایک دماغ تھا ، چونکہ ہر طبقے کی اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور یہی مفادات بعض صورتوں میں اپنے ہی طبقات کے اندر ہی آمنے سامنے آتے ہیں جس کا امیلکارکیبرال نے اپنی جدوجہد کے دوران سامنا کیا تب ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قومی آزادی کے لیے تمام طبقات کا قومی شعور سے لیس ہوکر قومی جہد میں ہونا لازم ہے۔
قومی شعور ہی انہیں اپنے اپنے ذاتی و طبقاتی مقاصد سے ہٹا کر اک قومی جہد کے ساتھ منسلک کرکے نہ صرف قومی جہد کی بدولت قومی آزادی حاصل کراتی ہے بلکہ اپنی قومی آذادی کی بدولت اسی قومی شعور سے لیس ہوکر سماجی شعور حاصل کرکے ایک آزاد سماج کا فرد بننے کے عمل میں آگے بڑھاتی ہے ۔
بلوچ قوم کی اس حوالے سے یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ شروع دن سے اس قومی جہد میں تمام طبقات کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ یوسف عزیز مگسی جس کی تاریخ کو کسی حد تک مسخ کرکے پیش کیا گیا وہ بھی قومی جہد کے لیے ،بقول محمد حسین عنقاء، باقاعدہ بلوچ آرمی کےخواہاں تھے ۔
سماجی برابری سے پہلے محکوم قومیتوں کا سوال کو حل کرنا یا قومیت کو بنیاد بنانا اس لیے بھی اشد ضروری ہے ،کہ قومی شناخت کسی کالونیل سماج میں دب جانے کے بعد بھی ابھرتی رہتی ہے کیونکہ جس طرح جب تک طبقات کا وجود ہے اس وقت تک مارکسزم متعلقہ ہے ۔اسی طرح جب تک قوموں کی محکومیت و سرحدیں ہونگیں ، تب تک قومی سوال کسی نہ کسی طرح موجود رہے گا چاہے 1958سے لے کر 1963 تک کا برلن کا بحران ہو یا ھنگیرین کا 1956 کا انقلاب ہو یا پراگ کا 1968 کا واقعہ ہو ، جارجیا کا سوویت یونین سے علیحدگی کا اور ریڈ آرمی کا اس شناخت کو دبانے کا واقعہ ہو جو پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔
جارجیا نے ایک ترقی یافتہ ریاست ہونے کے باوجود اپنی قومی آزادی و شناخت پہ سوویت یونین کے ساتھ کمپرومائزنہیں کیا، اسی طرح بقول پروفیسر عزیز الدین “بات صرف یوگوسلاویہ پر ختم نہیں ہوئی۔سابقہ سوویت یونین میں قومیت کا مسئلہ جس تیزی کے ساتھ اُبھرا اس سے قومی سوال کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ان تمام پیچیدہ قومی تنازعوں نے جن کے بارے میں ہمارے پنڈتوں نے فرض کرلیا تھا۔کہ وہ حل کیے جاچکے ہیں۔پھر سے سر اُٹھایا۔اور نوبت خُون ریز فسادات ،آتش زنی،قتل و غارت اور انکی روک تھام کیلئے گرفتاریوں اور کرفیو کے نفاذ تک پہنچی۔
سوویت یونین کے خاتمے سے لے کر کنفیڈریشن آف انڈپینڈینٹ سٹیٹس تک پہنچنے کے بعد اب وہاں قومی ریاستیں وجود میں آگئی ہے۔خود ان ریاستوں کے اندر اندر جہاں جہاں تاریخی وجوہات کی بناء پر موجود قومی مسائل مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔وہاں وہ ابھی بھی اپنا اظہار شد و مد کے ساتھ کررہے” اب ان تاریخی و زمینی حقائق سے منہ موڑنا اور اصطلاحات کی سیاست میں ان محکوم اقوام کیساتھ بقول لینن بغیر کسی لیت لعل کے کھڑے ہونے کے بجائے محکوم کو اخلاقیات کا درس دے کر اخلاقیات کی آڑ میں کٹہرے میں کھڑا کرنا، خود جدلیاتی میتھیڈ کے ساتھ زیادتی ہے یا اس کے علاوہ کسی بھی قومی تحریک پہ سرداروں کا ٹھپہ لگا کر اپنے آپ کو بری الذمہ کرنا دانشوری سے زیادہ پاکستانیت ، بددیانتی اور سامراجیت کا ملغوبہ ہے اور یہ پاکستانی ، بدیانتی اور سامراجی رویہ سن 47 سے لے کر آج تک ریاستی دانشوروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے)
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ حصہ11 – Niazamana