امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرائن میں روسی اقدامات کو ‘حملے کا آغاز‘ قرار دیتے ہوئے روس کے خلاف مالی پابندیوں کا اعلان کر دیا ہے۔ یورپی یونین نے بھی روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی منظوری دے دی ہے۔
مشرقی یوکرائن کی دو ریاستوں ڈونیٹسک اور لوہانسک کو ‘آزاد علاقے‘ کے طور پر تسلیم کرنے اور وہاں فوج بھیجنے کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے فیصلے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز ماسکو کے خلاف بعض اقتصادی پابندیوں کا اعلان کیا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق صدر بائیڈن نے صدر پوٹن کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور کہا کہ یوکرائن پر روسی حملے کا آغاز ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرائن کے بارے میں پوٹن کے دعوے ہم میں سے کسی کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے اور اگر وہ مزید آگے بڑھتے ہیں تو روس کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکا روس کے دو مالیاتی اداروں پر مکمل طور سے پابندی اور روس کے لیے قرضوں پر جامع پابندی عائد کر رہا ہے۔ جو بائیڈن کے مطابق ان پابندیوں کا مطلب ہے، ”ہم نے روس کی حکومت کو مغرب کے مالیاتی اداروں سے منقطع کر دیا ہے۔ ان پابندیوں کے بعد روس مغرب سے رقوم حاصل نہیں کر سکے گا اور یورپی مارکیٹوں سے نئے قرضے پر تجارت نہیں کر سکے گا۔ اس سے روس کے طبقہ اشرافیہ اور ان کے خاندان کے افراد پر بھی اثر پڑے گا۔‘‘
بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر پوٹن مزید آگے بڑھتے ہیں تو مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا،”گوکہ روس کے ساتھ جنگ کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن ہم نے اپنے اگلے قدم کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سفارت کاری سے مسئلے کا حل اب بھی نکالا جا سکتا ہے۔
امریکی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بائیڈن نے بالٹک ریاستوں کے ساحل پر اضافی فوج تعینات کرنے کا حکم دیا ہے اور وہاں ایف 35 جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر بھیجے جا رہے ہیں۔
یورپی یونین روس کے خلاف پابندیوں پر رضامند
یورپی یونین نے بھی روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ یہ پابندیاں اگلے چند دنوں میں نافذ ہو جائیں گی۔ فرانس کے وزیر خارجہ ژاں لی دریاں نے یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر روس مزید اقدامات کرتا ہے تو ”ہمارے پاس مزید پابندیوں کا راستہ کھلا ہے۔‘‘
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزیپ بوریل کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں سے ”روس متاثر ہو گا اور بہت زیادہ متاثر ہو گا۔‘‘
بوریل کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں کے تحت روس کے ان 351 اراکین پارلیمان اور 27 دیگر افراد نیز اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے، جنہوں نے یوکرائن کی سالمیت اور خودمختاری کے لیے خطرہ پیدا کر دیا۔ ان میں روس میں تجارت، میڈیا اور سیاست سے وابستہ شخصیات شامل ہیں۔
یورپی یونین نے ان پابندیوں کی تفصیلات فی الحال عام نہیں کی ہے۔ انہیں یورپی یونین کی جانب سے باضابطہ منظور کیا جائے گا۔ لیکن پابندیاں عائد کیے جانے والے افراد میں صدر پوٹن کا نام شامل نہیں ہے۔
اس دوران جرمنی نے اعلان کیا کہ وہ روس کے ساتھ نارتھ اسٹریم ٹو نامی گیس پائپ لائن پر کام روک رہا ہے۔ یہ گیس پائپ لائن روس کے لیے ایک ایسا فائدہ مند منصوبہ ہے، جس کی طرف وہ طویل عرصے سے دیکھ رہا ہے۔ لیکن امریکا کو اس منصوبے پر اعتراض ہے کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد توانائی کے لیے یورپ کا روس پر انحصار بڑھ جائے گا۔
یوکرائن تنازعے میں ہونے والی نئی پیش رفت کے ساتھ ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ جمعرات کے روز ہونے والی مجوزہ ملاقات منسوخ کر دی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوکرائن بحران کا حل فوری طور پر دکھائی نہیں دے رہا۔ بلینکن نے یوکرائن کے وزیر خارجہ دمیترو کولیبا کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ لاوروف کے ساتھ بات چیت کے لیے اس شرط پر تیار ہوئے تھے کہ روس یوکرائن پر حملہ نہیں کر ے گا۔
انہوں نے کہا، ”لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حملہ شروع ہو گیا ہے اور روس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ سفارت کاری کو مسترد کرتا ہے۔ ایسے میں ملاقات کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔‘‘
دریں اثناء روسی پارلیمان کے ایوان بالا نے منگل کو صدر پوٹن کو ملک سے باہر فوجی طاقت کے استعمال کی متفقہ طور پر اجازت دے دی ہے۔ کسی سینیٹر نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ اب پوٹن کو اپنی فوج یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے کنٹرول والے علاقوں میں بھجوانے کے لیے باضابطہ اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے قبضے والے علاقے میں آٹھ سال سے جاری تنازعے میں اب تک 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
dw.com/urdu