بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ تاشقند کے بعد شملہ معاہدے میں مسئلہ کشمیر سنجیدگی سے زیر غور آیا تھا۔ معاہدہ شملہ ایک سیدھا سادہ امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے پر پاکستان اور بھارت نے ریاست ہما چل پردیش کے ہل اسٹیشن شملہ میں دو جولائی1972 کو دستخط کیے۔ یہ ایک انتہائی مختصر اور جامع دستاویز تھی، جس میں دونوں ممالک نے اپنے تمام اختلافات کا حل پر امن طریقے سے حل کرنے کا عزم کیا۔ اور طاقت کے استعمال سے گریز کا وعدہ کیا۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر1971 کی جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت سے نمٹنے کے لیے تھا۔
لیکن کشمیر کو لے کراس معاہدے پر بہت مباحث ہوئے ، جو اب تک جاری ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے عام خیال یہ تھا کہ اس معاہدے میں کشمیر پر سمجھوتہ کر دیا گیا تھا۔ چونکہ اس تحریر میں ہم اس معاہدے کا ذکر ہی کشمیر کے تناظر میں کر رہے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس معاہدے میں کشمیر کے بارے میں ہے کیا ؟
جموںو کشمیر کا ذکر اس معاہدے میں دو دفعہ آیا ہے۔ پہلا ذکر کنٹرول لائن کے تناظر میں ہے۔ معاہدے میں بغیر کسی ابہام کے درج ہے کہ سترہ دسمبر 1971 کی جنگ بندی کے نتیجے میں جموںو کشمیر میں جو لائن آف کنٹرول معرض وجود میں ائی تھی، دونوں فریق اس پر اپنی اپنی پوزیشن کو متاثر کیے بغیر اس کا احترام کریں گے، اور کسی قسم کے باہمی اختلاف یا قانونی تشریح میں فرق کے باوجود کوئی فریق بھی اس کو یک طرفہ طور پر بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ دونوں فریق یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اس لکیر کی خلاف ورزی کے لیے طاقت کے استعمال یا دھمکی سے اجتناب کریں گے۔
دوسری بار جموںو کشمیر کا ذکر اس معاہدے کے آخری پیراگراف میں ہے، جس میں یہ عہد کیا گیا کہ دونوں ممالک کے سربراہ مستقبل میں پھر ملاقات کریں گے، اس اثنا میں پائدار امن کی بحالی کے لیے جنگی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کے حتمی حل، اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے دونوں ممالک کے نمائندے تفصیلات طے کرنے کے لیے ملاقات کریں گے۔
اکہتر کی جنگ کا آغاز بنگلہ دیش میں ہوا، لیکن اس کا اختتام کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ہوا۔ اس طرح بعد از جنگ سامنے آنے والے بڑے اختلافی مسائل میں بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے یا قیدیوں کی رہائی جیسے مسائل پر کوئی بڑا اختلاف نہیں تھا ، بلکہ سمجھوتے کے راستے میں ایک بار پھر کشمیر ہی بڑی رکاوٹ کے طور پر آتا نظر آتا تھا۔ حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ1971 کی جنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر میں لڑائی صرف ان علاقوں تک محدود تھی، جن کی دونوں ملکوں کے لیے سٹرٹیجک اہمیت بہت زیادہ تھی۔اس لڑائی میں پاکستان نے کشمیر میں 43 مربع میل کا علاقہ اور بھارت نے چارسو اسی مربع میل کا علاقہ لے لیا تھا۔ لیکن اہم بات یہ تھی کہ پاکستان71کی جنگ ہار چکا تھا، اور بھارت خطے کی ایک غالب فوجی قوت بن کر ابھرا تھا۔ جو اپنی اس پوزیشن سے کسی قسم کی سودے بازی کرنے کے لیے تیار تھا۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ شملہ میں اندارا گاندھی کی صلاحیتوں کا اظہار پورے طریقے سے نہیں ہوا تھا ۔ نتیجتاً ہندوستان نے 1971 کی جنگ کے ثمرات سے فائدہ اٹھا کر اپنی کامیابی کو جغرافیائی سیاسی تصفیہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ تقسیم کے بعد پہلی بار، بھارت پاکستان کے ساتھ طاقت اور وقار کی پوزیشن سے مذاکرات کر رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے جا چکے تھے، 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدی بھارت کے پاس تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارت نے کشمیر میں سٹرٹیجک مقامات اور سندھ اور جنوبی پنجاب میں پاکستان کے پانچ ہزار مربع میل علاقے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔
اس کے باوجود، تاریخ دانوں کے لیے یہ ایک بڑا معمہ ہی رہا کہ ہندوستان نے ایک فاتح کے طور پر اپنی مرضی کیوں مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اگرچہ تنازعات کے بعد کے اس مرحلے کے بارے میں ہندوستان کے نقطہ نظر کی زیادہ تر تشریحات متضاد ہیں، لیکن بے شمار شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ کی کامیابی نے نہیں ، بلکہ اسٹریٹجک مقاصد نے ہندوستان کے مذاکراتی رویے کا تعین کیا تھا۔ جنگ کے بعد کے نظام کو تشکیل دینے کے لیے اندرا گاندھی اور ان کے مشیروں نے اپنی ساری توجہ برصغیر کو سرد جنگ کے اگلے مرحلے سے الگ رکھنے پر مرکوز رکھی تھی۔
سنہ1971 کے بعد کے بین الاقو امی اور علاقائی تناظر میں پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے تک پہنچنا اندرا گاندھی اور ان کی قومی سلامتی ٹیم کے لیے ایک اہم پالیسی ہدف تھا۔ بنگلہ دیش میں ایک کامیاب جنگ کے بعد، پالیسی سازوں نے امن کی قابل اعتماد کوشش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی حیثیت کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک اس کوشش کا سب سے زیادہ پسندیدہ نتیجہ یہ ہوتا کہ کشمیر میں دونوں فریقوں کی ڈی فیکٹو پوزیشن کے ارد گرد ایک حتمی حل تلاش کیا جاتا۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں نے کشمیر میں پاک بھارت تنازعہ کی کچھ گہری جڑوں کوتک پہنچ کر اسے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں پی این ہکسار سر فہرست تھا۔ ہکسار اندراگاندھی کے سرکردہ خارجہ پالیسی کے مشیروں میں شامل تھا۔ شملہ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ ہندوستان کا نقطہ نظر “اس بات کو تسلیم کرنے پر مبنی تھا کہ پاکستان جنگ کے بعد اپنی قومی شناخت کا ایک حل طلب بحران رکھتا ہے“۔ اور 1971 کے واقعات نے پاکستان کے لیے ایک متبادل مستقبل کے امکانات کھول دیے تھے۔
جنگ کے فوراً بعد تیار کیے گئے ایک میمورینڈم میں، ہکسار نے سرحد کے اس پار ہونے والے واقعات کا ذکر کیا جہاں، بقول اس کے “فوجی نوکر شاہی اور جاگیردارانہ سماجی نظام تباہ ہو چکا تھا۔لہذا اب یہ ایک ایسی قوم ہے، جو اپنے لیے نئی شناخت تلاش کر رہی ہے۔‘‘ ہکسار نے اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کہ ہندوستان کو “پاکستان میں نئی ابھرتی ہوئی قوتوں کے ساتھ کیسے کام کرنا چاہیے“۔ ماضی کے تلخ جنگی تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے دلیل دی، “دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، فاتح طاقتوں نے ایک سبق سیکھا تھا کہ وہ شکست خوردہ قوموں کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کریں کہ ان کو خود اپنی شکست سے بھی زیادہ زلت کا احساس ہو ۔ اس نے مشورہ دیا کہ جنوبی ایشیا میں ایک ذمہ دار ملک کے طور پر اپنے مقام پر فخر کرنے والے ہندوستان کو نئے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات میں دانشمندی اور دور اندیشی سے کام لینا پڑا۔
اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار ڈی پی دھر نے بھی کیا ۔دھر اندرا گاندھی کے ایک اور اہم معتمد اور اہم ہندوستانی مذاکرات کار تھے۔ مارچ1972میں ہکسار کو اپنے ٹیلی گرام میں، ڈی پی دھر نے لکھا کہ شملہ مائدہ فاتح اور مفتوح کے درمیان نہیں ہوگا، کیونکہ اس طرح کے تصفیے نے تاریخ میں نئے اور پر تشدد تنازعات کو جنم دیا ہے۔ اس کے برعکس یہ تصفیہ دو بچھڑے ہوئے بھائیوں کے درمیان رنجش کے اختتام کے طور پر ظاہر ہونا چاہیے، اور ایسا ہی کیا جائے گا‘‘ ایک طرف بھارت کی برصغیر کو لے کر طویل مدتی پالیسی تھی، دوسری طرف پاکستان بھی مفاہمت کے لیے تیار تھا۔ اس ماحول سے کیا نتیجہ برآمد ہوا، اور شملہ میں کیا ہوا ؟ اس کا احوال آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔