اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج آ گئے ہیں، چار ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار ہوئی ہے اور پنجاب میں عآپ (عام آدمی پارٹی) کی حکومت بن گئی ہے۔ پنجاب میں عآپ کی جیت کے پیچھے کانگریس میں گروپ بندی اور شرومنی اکالی دل کی غلط پالیسیاں ذمہ دار بتائی جا رہی ہیں۔ گوا میں بی جے پی کو اپوزیشن کے انتشار کا بھی فائدہ ملا کیونکہ وہاں کانگریس کے علاوہ عآپ اور ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس بھی میدان میں تھی۔ اتراکھنڈ اور منی پور میں بی جے پی کی طاقت انتخابی مشینری کے سامنے کانگریس ٹھہر نہیں سکی۔ یہ اس دلیل کے باوجود کہ بی جے پی کو اقتدار میں رہنے کے سبب فطری مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
اصل لڑائی اتر پردیش میں تھی، جہاں بی جے پی نے شاندار فتح حاصل کی۔ پورے ملک میں اور خصوصاً اتر پردیش میں نوٹ بندی، بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی تھی۔ کورونا کے نام پر جلدی جلدی میں لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن کے سبب غریب مہاجر مزدوروں کو سینکڑوں کلو میٹر پیدل چل کر اپنے گھر واپس جانا پڑا تھا۔ آکسیجن کی کمی کے سبب بڑی تعداد میں کورونا متاثرین کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ اتر پردیش میں ہی اناؤ اور ہاتھرس میں ہوئی عصمت دری اور قتل کے ہولناک واقعات نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں ایک مرکزی وزیر کے بیٹے نے اپنی ایس یو وی سے کسانوں کو کچل کر مار ڈالا تھا۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں بیف اور گئورکشا کے ایشوز کو لے کر سماج کا مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن کیا گیا تھا اور حکومت کی پالیسیوں کے سبب آوارہ مویشی کسانوں کی فصلیں تباہ کر رہے تھے۔ یہی وہ ریاست ہے جہاں ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس میں گزشتہ کچھ سالوں میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔
اتر پردیش میں ذات پر مبنی فارمولے پر بھی خوب بحث ہوئی۔ انتخاب کے ٹھیک پہلے کئی او بی سی لیڈروں نے بی جے پی کو چھوڑ کر سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو کی قیادت والے اتحاد کا دامن تھام لیا۔ زمینی سطح پر کام کر رہے کئی صحافیوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی جیت یقینی ہے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ بی جے پی نے بہت آسانی سے سماجوادی پارٹی کو پٹخنی دے دی؟
جہاں ذات پات والے فارمولوں اور اقتدار مخالف لہر کا فائدہ سماجوادی پارٹی کو ملا، وہیں بی جے پی کے حق میں کئی اسباب کام کر رہے تھے۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن تو تھا ہی، آر ایس ایس کا انتہائی اثردار نیٹ ورک بھی تھا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ بی جے پی ایک بڑے کنبے کا حصہ ہے، جس کی قیادت ہندو نیشنلزم کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ جب بھی کوئی انتخاب ہوتا ہے، آر ایس ایس کے ہزاروں پرچارک اور لاکھوں سویم سیوک بی جے پی کی طرف سے محاذ سنبھال لیتے ہیں۔ اتر پردیش میں انتخاب کے پہلے آر ایس ایس کے سرکردہ لیڈر ارون کمار نے آر ایس ایس سے منسلک تنظیموں کے لیڈروں کی ایک میٹنگ بلا کر انھیں یہ ہدایت دی تھی کہ انتخابی مہم میں وہ بی جے پی کی مدد کریں۔
اس بار تو آر ایس ایس کے مکھیا موہن بھاگوت نے بھی کھل کر کہا تھا کہ انتخابی مہم میں ہندوتوادی پروگراموں (رام مندر، کاشی وشوناتھ کاریڈور) اور نیشنلسٹ سرگرمیوں (بالاکوٹ) کا تذکرہ ترجیحی بنیاد پر کیا جائے۔ انتخاب کے دوسرے مرحلے کے اختتام کے بعد بھاگوت نے آر ایس ایس کارکنان سے زور و شور سے بی جے پی کے حق میں کام کرنے کی ہدایت دی تھی کیونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ پہلے دو مراحل میں بی جے پی کی کارکردگی بہت خراب رہی تھی۔ جہاں تک ذات پر مبنی فارمولوں کا سوال ہے، انھیں اپنے حق میں کرنے کے لیے مذہبی پولرائزیشن کو مزید گہرا کیا گیا۔
سوشل انجینئرنگ کے ذریعہ پارٹی نے پہلے ہی دلت طبقات کو اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ آر ایس ایس کے کنبے کے پاس پہلے سے ہی ایک مضبوط تشہیری نظام ہے جس کے ذریعہ وہ سماج کے ہر شخص تک اپنی بات پہنچا سکتا ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے کہ آر ایس ایس نے کس طرح بڑھتی ہوئی قیمتوں، نوجوانوں میں بے روزگاری، کسانوں کی بدحالی اور اقلیتوں کو دہشت زدہ کرنے کے کئی واقعات کے باوجود ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
سنہ 2017 کے انتخاب میں بی جے پی اتحاد نے یہ تشہیر کی تھی کہ صرف وہی ہندوؤں کے مفادات کی حفاظت کر سکتی ہے اور سماجوادی پارٹی و کانگریس مسلم پرست ہیں۔ اس بار یوگی آدتیہ ناتھ نے غزوۂ ہند کا خوف دکھایا اور کہا کہ مسلمان اپنی آبادی بڑھا کر ملک پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یوگی اور مودی دونوں مسلم اقلیتوں کو نشانہ بناتے رہے۔ مودی نے کہا کہ سائیکل (سماجوادی پارٹی کا انتخابی نشان) کا استعمال بم دھماکہ کرنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔
یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ یوگی، سماجوادی پارٹی کو مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو مافیا، جرائم پیشے اور دہشت گرد سے جوڑتے رہے۔ کیرانہ کے نام پر خوف پیدا کیا گیا اور مظفر نگر تشدد کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ آدتیہ ناتھ نے 80 فیصد بنام 20 فیصد کی بات کہہ کر سماج کو تقسیم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ ملائم سنگھ یادو کو ابا جان کہتے رہے۔ اس بار یوگی نے بی جے پی کے تقسیم پسند ایجنڈے کو نافذ کرنے میں اپنے سبھی پچھلے ریکارڈ توڑ دیئے۔
ان نتائج کا 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب پر کیا اثر ہوگا یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ حالانکہ مودی نے تو یہ کہہ ہی دیا ہے کہ 2024 میں انہی انتخابات کے نتائج دہرائے جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ حال میں ملک میں قومی سطح پر ایسی کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے جو تقسیم والی سیاست کے بڑھتے قدموں کو تھام سکے، ہمارے جمہوری اداروں میں آ رہے زوال کو دھیما کر سکے، لوگوں کے لیے روزگار کا انتظام کر سکے، معاشی نابرابری کو گھٹا سکے اور کسانوں کی بدحالی کو دور کر سکے۔ آج ہمارے ملک میں اقلیت ڈرے ہوئے ہیں اور اپنے محلوں میں محدود ہو رہے ہیں۔
ملک میں جمہوری حقوق اور مذہبی آزادی سے جڑے انڈیکس میں گراوٹ آ رہی ہے۔ فرقہ پرستی نے عوام میں گہری جڑیں جما لی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتیں انتہائی مضبوطی کے ساتھ لوگوں کی رائے بدل رہی ہیں۔ گودی میڈیا، سوشل میڈیا، آئی ٹی سیل اور فرضی خبریں فرقہ پرست نیشنلٹس کو مضبوطی دے رہی ہیں۔
اسمبلی انتخابات کے نتائج سے یہ صاف ہے کہ بی جے پی–آر ایس ایس کی انتخابی مشینری انتہائی طاقتور ہے اور منقسم اپوزیشن اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اپوزیشن کا ہر لیڈر اپنے آپ کو مودی کے متبادل کی شکل میں پیش کر رہا ہے۔ اس سے نہ تو فرقہ پرست طاقتیں ہاریں گی اور نہ ہی ملک آئین کے دکھائے راستے پر چل سکے گا۔ کیا سبھی اپوزیشن پارٹیاں آئینی قدروں کی حفاظت اور عوامی فلاح پر مبنی کم از کم مشترکہ پروگرام تیار کر ایک اتحاد نہیں بنا سکتیں؟ اس اتحاد کا لیڈر کون ہو یہ انتخاب کے بعد طے کیا جا سکتا ہے۔
اتحاد میں شامل جس پارٹی کے سب سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ ہوں، وزیر اعظم کا عہدہ اسے دیا جا سکتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جو لوگ گاندھی، امبیڈکر اور بھگت سنگھ کے اقدار کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے نجی مفادات کی پروا نہ کرتے ہوئے ملک اور اس کے شہریوں کے مفادات کی فکر کریں۔ یہ ہمارے لیڈروں کے لیے امتحان کا وقت ہے۔ کیا وہ صرف اپنی ترقی کی سوچتے رہیں گے یا ملک کے کروڑوں شہریوں کی فکر کریں گے۔
(انگریزی میں تحریر کردہ مضمون کا اردو ترجمہ)
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی