ظفر آغا
کیا لکھوں، کیا کہوں! سر نگوں ہوں کہ حالیہ اسمبلی چناؤ کے بارے میں میرے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ خصوصاً اتر پردیش میں چناوی نتائج میرے خیال سے بالکل ہی الگ ثابت ہوئے۔ وہ تو کہیے کہ یوپی کے مسلم ووٹروں نے ناک رکھ لی، ورنہ منھ دکھانے لائق نہ رہتا۔ میں نے اتر پردیش کے مسلم ووٹر کے بارے میں دو باتیں کہی تھیں اور وہ دونوں اندازے بالکل درست ثابت ہوئے۔
اولاً، میرا یہ اندازہ تھا کہ حالیہ یوپی چناؤ مین مسلم ووٹر بی جے پی کو ہرانے کی حکمت عملی کے تحت سماجوادی پارٹی کے حق میں ووٹ دے گا۔ تقریباً 95 فیصد یوپی کے مسلم ووٹروں کے تعلق سے میں کہے جا رہا تھا وہ یہ تھی کہ مسلم ووٹر اب جذبات کی رو میں نہیں بلکہ سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لے گا۔ اس کو یہ سمجھ میں آ رہا تھا کہ اویسی صاحب کی پارٹی کو ووٹ ڈالنے سے اس کو فائدہ کچھ نہیں بلکہ نقصان زیادہ ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ یوپی میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کا ایک بھی نمائندہ کامیاب نہیں ہوا۔ غالباً اویسی صاحب کی پارٹی کے تمام نمائندوں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔
بنگال اور اتر پردیش میں مجلس اتحاد المسلمین پارٹی کی زبردست شکست کے بعد تقریباً اب یہ طے ہے کہ حیدر آباد کے باہر مسلمان اس پارٹی کو بی جے پی کی ’بی ٹیم‘ تصور کرنے لگا ہے۔ حقیقت جو بھی ہو، بہار میں مجلس اتحادالمسلمین کی سیاست سے بی جے پی کو جو فائدہ ہوا اس کے بعد یہ لگتا ہے کہ حیدر آباد کے باہر مجلس اتحادالمسلمین کا مستقبل اچھا نہیں ہے۔
لیکن سوال محض مسلم ووٹر کانہیں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ حالیہ پانچ ریاستوں یعنی اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور میں ہوا کیا! چار ریاستوں یعنی اتر پردیش، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں بی جے پی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی۔ سب میں چونکانے والے نتائج اتر پردیش کے تھے جہاں بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہوئی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک میں معاشی بدحالی اپنے عروج پر ہے۔ نوجوانوں کو روزگار میسر نہیں۔ صوبہ میں کسان سال بھر تک حکومت کے خلاف دھرنے پر تھے۔ صوبہ کے وزیر اعلیٰ یوگی جی نے پولیس راج لگا رکھا تھا۔ نارمل حالات میں یہ تمام وہ پیمانے تھے جن کے اعتبار سے یوگی حکومت کو چناؤ ہار جانا چاہیے تھا۔ اور میں اسی بنا پر یہ کہے اور لکھے جا رہا تھا کہ یوگی جی چناؤ ہار رہے ہیں۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ظاہر ہے کہ چناؤ ان سیاسی پیمانوں کے طرز پر نہیں ہوا جن پر کہ عموماً چناؤ ہوتا ہے، اور ہونا چاہیے۔ بات صاف ہے کہ اتر پردیش سمیت تقریباً سارے ملک کی سیاست میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا ہو چکی ہے۔ ہمارے جیسے سیاسی تجزیہ کار اپنے سیاسی تجزیہ میں اس بنیادی فیکٹر کا خیال نہیں رکھ رہے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ سیاسی فیکٹر کیا ہے کہ جس نے اس ملک کی پچھلی 70 سال کی سیاست میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دی ہے! وہ کوئی دور کی کوڑی نہیں کہ ہم کو سمجھ میں نہ آئے۔ بھلے ہی ہمارا دل و دماغ اب بھی اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہ ہو۔ با ت یہ ہے کہ ہم یعنی ہندوستان ایک سیکولر ریپبلک نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طور پر ایک ہندو راشٹر ہو چکا ہے۔ اس ملک کا سیاسی و معاشی نظام بشمول تمام ادارے، ملک کا مڈل کلاس اور ملک کا اکثریتی غریب بھی نہ صرف بطور ہندو سوچ رہا ہے بلکہ وہ اپنے کو ہندو راشٹر کا باشندہ سمجھتا ہے۔
اس کی پہلی فکر یہی ہے کہ ہندوستان کو نریندر مودی کی قیادت میں کیسے ہندو راشٹر برقرار رکھا جائے۔ اس جستجو میں اس کو ان باتوں کی فکر کم ہے کہ اس کی معاشی حالت اچھی ہے یا خراب، اس کے پاس روزگار ہے کہ نہیں، ملک اور وہ خود ترقی کر رہا ہے کہ نہیں، حکومت ملک کا سارا اثاثہ بیچ کر ملک کو کنگالی کی کگار پر کیوں پہنچا رہی ہے۔ نارمل سیاسی حالات میں جو بھی سیاسی پیمانے ہونے چاہئیں، اکثریتی ووٹر کو اس کی پروا نہیں۔ وہ تو بس ایک جنونی کیفیت میں ہندو مفاد اور ہندو راشٹر کے حق میں ووٹ ڈال رہا ہے۔ خواہ اس کی اپنی ذاتی معاشی پریشانیاں کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔ یہ ایک نشہ ہے جو اس وقت ہندوستان پر طاری ہے اور اس کا خمار کب تک برقرار رہے کہنا مشکل ہے۔
الغرض اس ہندوتوا نشہ کا دوسرا سب سے اہم فیکٹر یہ ہے کہ بطور ہندو اس ملک کی اکثریت مسلمان کو اپنا دشمن تصور کر رہی ہے۔ یہ بات اس ملک کی اقلیت خصوصاً مسلمان کے لیے بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ مودی کی قیادت میں بی جے پی کو یہ معلوم ہے کہ وہ جتنا زیادہ مسلم مخالف سیاست کرے گی اتنا ہی ہندوتوا نشہ تیز ہوگا اور اس کو اتنی ہی چناوی کامیابی حاصل ہوگی۔ اس کے سیاسی معنی یہ ہیں کہ اب سنہ 2024 تک کے پارلیمانی چناؤ تک اس ملک میں مسلم مخالف سیاست کا سیلاب آنے والا ہے۔
مسلم مخالفت کی یونہی کیا کمی تھی کہ اور سیلاب آئے! پہلے ہی نماز پرپابند، تین طلاق ختم، لو جہاد میں لنچنگ، حجاب کی مخالفت جیسی تمام باتیں تو جاری ہی تھیں۔ اب مسلم مخالفت میں اور کیا ہوگا! سنگھ کی کچھ باتیں اب بھی ایسی بچی ہیں جو پوری نہیں ہوئی ہیں۔ نریندر مودی سنگھ کی اولین خواہش یعنی ایودھیا مندر، کشمیر سے آرٹیکل 370 جیسی تمام باتیں تو پوری کر چکے ہیں۔ لنچنگ اور نماز پر پابندی و حجاب مخالفت وغیرہ جیسی باتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مذہبی اور کلچرل بنیاد پر حملہ ہو چکا، اور اس کو نفسیاتی طور پر ڈرا بھی دیا گیا۔ بس اب صرف اس کو آئینی طور پر دوسرے درجے کا شہری بنانے کا ایجنڈا بچا ہے۔ یعنی مسلمانوں سے اس کا پرسنل لاء پوری طرح چھین لو اور ووٹ ڈالنے کا اختیار ختم کرو۔
چنانچہ اب جلد ہی اس ملک میں یونیفارم سول کوڈ اور نئے شہری قانون کے تحت نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا شور اٹھنے والا ہے۔ اتر پردیش کے مسلمانوں نے متحد ہو کر جو ووٹ کیا اس سے بی جے پی کو خطرہ ہو گیا تھا۔ وہ خطرہ این پی آر کے ذریعہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔ اور ہندو راشٹر میں مسلمان کے کوئی شرعی حقوق بھی نہ بچیں، سا لیے یونیفارم سول کوڈ لاگو کیا جائے۔ اس طرح ملک کو نہ صرف باقاعدہ ہندو راشٹر بنا دیا جائے بلکہ اس طرح ملک میں پھیلی معاشی بدحالی کے باوجود ہندو عوام کا ہندوتوا نشہ تیز تر کر کے آنے والے اسمبلی چناؤ اور آئندہ لوک سبھا چناؤ بھی جیتا جا سکے۔
ان حالات میں بس سردار جعفری کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جو کچھ یوں ہے:۔
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی