افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع ایک مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد ایک زور دار دھماکہ ہوا، جس میں کم از کم 50 افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہو گئے۔ مسلمانوں کے لیے مقدس رمضان کے مہینے میں افغانستان کے اندر عبادت گاہوں اور شہری اہداف پر حملوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔
پچھلے ہفتے افغانستان کے شہر مزار شریف میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد میں کیے گئے دھماکے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور دیگر کئی زخمی ہو گئے تھے۔اسی طرح ایک سکول کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
افغان وزارت داخلہ کے نائب ترجمان بسم اللہ حبیب نے بتایا کہ دھماکہ کابل کے مغربی حصے میں واقع خلیفہ آغا گل جان مسجد میں مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کے قریب ہوا۔ ابتدائی طور پر حکام نے 10 افراد کی ہلاکت کا بتایا تھا۔
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی محکمہ صحت کے حوالے سے خبر دی ہے کہ دھماکے کے بعد اسپتالوں کو 66 لاشیں موصول ہوئی ہیں اور دیگر 78 زخمیوں کا علاج چل رہا ہے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ زخمیوں میں سے 10 کی حالت تشویشناک تھی، اور تقریباً 20 افراد کو جلنے والی یونٹ میں داخل کرایا گیا۔
یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب سنی العقیدہ مسلمانوں کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد، نمازی ذکر کے لیے جمع تھے۔ اس مسجد کے منتظم سید فضل آغا نے بتایا کہ ان کے خیال میں کوئی شخص، جو خود کش بمبار تھا، وہ ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور پھر دھماکہ خیز مواد سے اپنے آپ کو اڑا دیا۔
انہوں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’سیاہ دھواں تیزی سے اٹھا اور ہر طرف پھیل گیا، وہاں ہر جانب لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ مرنے والوں میں ان کے بھتیجے بھی شامل ہیں: ’’میں خود تو بچ گیا، لیکن اپنے پیاروں کو کھو دیا‘‘۔
مقامی رہائشی محمد صابر نے بتایا کہ انہوں نے خود بہت سے زخمیوں کو ایمبولینس میں لادتے ہوئے دیکھا، ’’دھماکہ بہت زور دار تھا، میں نے تو سوچا کہ کہیں میرے کان کے پردے نہ پھٹ گئے ہوں۔‘‘ ایک نوجوان مقامی افغان وحید نے بتایا کہ جب انہوں نے دھماکے کی خبر سنی تو وہ گھر پر تھے اور یہ جان کر فوراً مسجد پہنچے کہ ان کے بھائی وہاں پر تھے۔ وحید نے کہا کہ وہاں سب مدد کے لیے چیخ رہے تھے اور انہوں نے زخمیوں کو ایمبولینس تک لے جانے میں مدد کی۔
وحید نے مزید بتایا، ’’ہر کوئی رو رہا تھا اور خون میں لت پت تھا۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ میرے بھائی بھی زخمی ہوئے ہیں۔‘‘
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس دھماکے سے متعلق ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ قصور واروں کو ڈھونڈ کر انہیں سزا دی جائے گی۔ تاہم ابھی تک کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں ہونے متعدد دھماکوں میں درجنوں افغان شہری مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے بعض حملوں کی ذمہ داری نام نہاد اسلامی شدت پسند گروپ داعش نے قبول کی ہے۔
افغانستان کے طالبان حکمرانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کو محفوظ بنانے کی کوشش کی ہے اور داعش کی مقامی شاخ کو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔ لیکن بین الاقوامی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
DW.COM/URDU