اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ بحران کے حل میں جنرل باجوہ کا بہت عمل دخل ہے اور کئی دوست اس بات پر غصہ کررہے ہیں کہ جب جنرل باجوہ ہی سب کچھ کررہا ہے تو پھر ایسی تبدیلی کا کیا فائدہ۔ یہ سیاست دان تو ہمیشہ سے ہی جرنیلوں کے تلوے چاٹتے آرہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جنرل باجوہ کو چلتا کیا جائے۔لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نیا آرمی چیف بھی جنرل باجوہ ہی ہوگا۔
اچھا ایک بڑا مسئلہ اور ہے کہ جیسے ہی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو عوام تبدیلی کی امید لگا بیٹھتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ نیا حکمران کوئی ایسا بٹن دبائے گا کہ سب مسائل درست ہوجائیں گے۔بنیادی طور پر یہ سوچ بھی غیر جمہوری ہے۔
اگر اس دوران آئین میں الیکٹرول ریفارمز یا ججز کے طریقہ کار کو بدلنے کی کوشش ہوگی تو اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے گا کہ سیاست دان یہ سب کوششیں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ کیا اس سے اشیا کی قیمیتں کم ہو جائیں گی؟ کیا مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟ وغیرہ وغیرہ
سیاست دانوں کے پاس بندوق نہیں ہوتی وہ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں۔ سیاسی جدوجہد وقت مانگتی ہے اور تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب بھی سیاست دانوں کی جدوجہد کسی کامیابی کے نزدیک پہنچتی تھی تو ایک سیاست دان فوج کے ساتھ مل کر تمام عمل کو زیرو کردیتا تھا۔ لیکن اس دفعہ پھر ایک گولڈن چانس ہے کہ سیاست دان متحد ہو کر ایسی قانون سازی کریں کہ آنے والے سالوں میں پاک فوج کا عمل دخل کم سے کم ہوتا جائے۔عوام کی خوشحالی اور ملکی ترقی میں ملک کی آزادانہ خارجہ پالیسی بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ سیاست دان اپنی خارجہ پالیسی کو کیسے ترتیب دیتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے تمام وسائل پر پاک فوج قابض ہے اور یہ واحد ادارہ ہے جو ملکی وسائل کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ لیکن پاک فوج کے عمل دخل کو ایک حکمنامے کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے آئین میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کا متحدہونا بھی ضروری ہے۔
شہباز شریف یا نواز شریف کوئی ذہین سیاستدان نہیں اور نہ ہی وہ کوئی گورننس کے ماہر ہیں۔ ا نہیں صرف منشی صحافیوں نے بہترین منتظم بنا رکھا ہے۔ یہ بے چارے تو کسی صحافی کے سوال کا درست جواب بھی نہیں دے سکتے۔ لیکن جمہوری عمل کا تقاضا ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن اقتدار سنبھا لے۔ امید کی جاتی ہے کہ نئے وزیراعظم پیپلز پارٹی کے تعاون سے ایسے اقدامات کریں گے جو جمہوریت کو مضبوط کرنے کا باعث ہونگے۔
خواہش یہی ہے کہ اگلے جنرل الیکشن ایک صاف ستھرے اچھے ماحول یعنی آزادانہ ہوں اور جو بھی سیاسی پارٹی اکثریت حاصل کرے وہ پارلیمنٹ میں موجود سب سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلے جیسے 2009 میں پیپلز پارٹی نے کوشش کی تھی۔
محمد شعیب عادل