بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اتوار کے روز ہندو مذہبی رہنماؤں کی ہونے والی ایک پنچایت میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فرمان جاری کیا گیا۔ ادھر رمضان کے موقع پر ممبئی میں ایک سخت گیر ہندو رہنما نے دھمکی دی ہے کہ اگر مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹے تو مساجد کے دروازں پر ہندوؤں کے مذہبی گيت بجائے جائیں گے۔پولیس کا کہنا ہے کہ نئی دہلی میں ہندوؤں کی پنچایت میں جو کچھ بھی ہوا اس کے خلاف ایک کیس درج کیا گيا ہے تاہم ابھی تک کسی کی گرفتار نہیں ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل ہری دوار میں بھی اسی طرح کی ایک پنچایت میں مسلمانوں کی ‘نسل کشی کرنے” کا نعرہ لگایا گيا تھا اور جس مذہبی رہنما، یتی نرسگھا نند سرسوتی، نے اتوار کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کہی، وہ بھی اس پنچایت میں موجود تھے۔ وہ فی الوقت ضمانت پر ہیں۔
اتوار کی دیر رات دہلی پولیس نے ایک بیان جاری کر کے مقدمہ درج کرنے کی تصدیق کی اور کہا، “یتی نرسگھا نند سرسوتی سمیت بعض مقررین اور سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے دو برادریوں کے درمیان انتشار، دشمنی، نفرت کے جذبات کو فروغ دینے والے الفاظ کا استعمال کیا۔“
پنچایت میں کیا ہوا؟
دہلی میں پنچایت سے خطاب کرتے ہوئے نرسنگھا نند نے کہا کہ اگر بھارت میں، “کوئی مسلمان وزیر اعظم بن جاتا ہے، تو آئندہ بیس برس کے دوران آپ میں سے 50 فیصد اپنا عقیدہ بدل دیں گے اور باقی 40 فیصد ہندو مار دیے جائیں گے۔“
ان کا مزید کہنا تھا، “تو یہ ہے ہندوؤں کا مستقبل۔ اگر آپ اسے بدلنا چاہتے ہیں تو مرد بنو۔ اور مرد ہونا کیا ہے؟ وہ شخص جو ہتھیاروں سے لیس ہو۔” ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا کرنے ہوں گے، اور انہیں لڑنے کی بھی تربیت دینی ہو گی“۔
غازی آباد مندر کے پجاری کا مزید کہنا تھا، “اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان آپس میں نہ لڑیں، تو آپ کو فلم ‘کشمیر فائلز دیکھنی چاہیے۔ جس طرح کشمیر کے لوگوں کو اپنی زمین، اپنی بیٹیاں اور اپنی جائیدادیں پیچھے چھوڑنی پڑیں، اسی طرح آپ کو بھی بچ کر بحر ہند میں ڈوبنا پڑے گا۔ آپ کے پاس یہی واحد متبادل ہے“۔
سخت گیر ہندوؤں کی ترجمانی کرنے والے ٹی وی چینل ‘سدرشن نیوز‘ کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے بھی اس تقریب میں بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں سب کے لیے مساوی حقوق نہیں ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، “میں شیواجی کو اپنا باپ سمجھتا ہوں اور تم اورنگ زیب کو اپنا مانتے ہو۔۔۔۔ میں رام چندر کا پرستار ہوں، تم بابر کے بیٹے ہو۔ مجھے کاشی میں شیو مندر چاہیے، آپ گیان واپی مسجد کے لیے لڑ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ تو کیا برابری ہو سکتی ہے؟“
مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی دھمکی
ادھر ریاست مہا راشٹر کی ایک سخت گیر سیاسی جماعت ‘مہا راشٹر نو نرمان سینا‘ کے سربراہ راج ٹھاکرے نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا جلد ہی کوئی بند و بست نہ کیا تو پھر ان کے کارکنان مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا (ہندو عقیدت مندوں کا ایک خاص ورد) بجائیں گے۔
ایک ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا، “مسجدوں کے باہر لاؤڈ سپیکر کی کیا ضرورت ہے؟ کیا جب مذہب کی بنیاد رکھی گئی تھی تو لاؤڈ سپیکر موجود تھے؟ اگر حکومت نے انہیں ہٹایا نہیں تو پھر ہمارے کارکنان اس کے سامنے ہنومان چالیسا بجائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا، “میں کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں ہوں۔ مجھے خود کے اپنے مذہب پر فخر ہے“۔
راج ٹھاکرے نے نریندر مودی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ممبئی میں واقع مدارس پر چھاپے کی کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا، “ان مقامات پر پاکستانی حامی رہتے ہیں۔ ممبئی پولیس کو بھی معلوم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ارکان اسمبلی انہیں ووٹ بینک کے طور پر استعمال کر رہے ہیں“۔
بھارت میں سن 2014 میں نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سے اقلیتوں، خاص طور پر مسلم برادری، کے خلاف اس طرح کے نفرت انگیز بیانات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ آئے دن بھارت میں ان پر حملے بھی ہوتے رہتے ہیں اور بیشتر واقعات میں ملزمان فوری طور پر ضمانت پر رہا ہو کر باہر آ جاتے ہیں۔
dw.com/urdu