بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان کی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرار داد پیش ہونے کے بعد ملک کی سیاست ایک ڈرامائی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اس وقت یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کا قرارداد کے بارے میں رولنگ آئین و قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔
حزب مخالف نے عدالت میں یہ عرض گزاری ہے کہ قرارداد کے بارے میں ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ انہوں نے داد رسی کے لیے درخواست گزاری ہے کہ اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جائیے۔ اسمبلی کو بحال کیا جائیے، اور قومی اسمبلی کی کاروائی کا سلسلہ وہاں ہی سے شروع کیا جائیے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔
ظاہر کا حکومت کا موقف اس کے برعکس ہے۔ ارباب اختیار کا خیال ہے کہ سب کچھ ملک کے دستور اور قانون کے مطابق ہوا ہے، اس لیے حزب مخالف کی درخواست کو خارج کر دیا جائیے۔ اب اس انتہائی حساس اور اہم ترین سوال پر سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے، بہتر ہو گا کہ اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائیے۔
دریں اثنا یہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ ماضی میں اس سے ملتے جلتے مقدمات میں پاکستان کی اعلی عدالتوں کے جج حضرات کیا فیصلے کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ یہ فیصلے موجودہ مسئلے پر عدالت عالیہ کے فیصلے پر اثر انداز ہوں، لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ایسا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلا فیصلہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب سن1954میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے ایک حکم کے ذریعے آئین ساز اسمبلی کو برخاست کر دیا تھا ۔ برخاست شدہ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اس برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا۔ہائی کورٹ نے گورنر کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ معاملہ وفاقی عدالت میں چلا گیا۔ جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت یعنی اس وقت کی سپریم کورٹ نے گورنر کے حکم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نظریہ ضرورت کا عنصر داخل ہوا۔
اس سلسلے کا دوسرا بڑا مقدمہ دوسو کیس تھا۔ دوسو کیس بنیادی طور پر ایک قتل کے مقدمے میں اپیل تھی۔ یہ اپیل پہلے مغربی پاکستان کے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔ ہوا یہ تھا کہ بلوچستان کے ایک لویہ جرگہ نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک شہری دوسو کو ایف سی آر کے تحت قتل کے مقدمے میں سزا سنائی تھی۔ دوسو کے لواحقین نے لویہ جرگہ کے فیصلے اور دائرہ اختیار کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے لویہ جرگہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ایف سی آر کو آئین پاکستان کے 1956 کے آرٹیکل 5 اور 7 کے خلاف قرار دے دیا۔ اس فیصلے نے 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد ایف سی آر کے تحت منظور کیے گئے بہت سے دوسرے احکامات پر سنگین سو الیہ نشان کھڑے کر دیے۔
وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور کیس 13 اکتوبر 1958 کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ اسی دوران سات اکتوبر1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس پیشرفت نے پوری توجہ دوسو کیس کی سماعت کی طرف مبذول کر دی ،کیونکہ ہائی کورٹ نے 1956 کے آئین کے تحت لویہ جرگہ کے فیصلے کو تبدیل کر دیا تھا ،جسے 7 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء آرڈر اور 10 اکتوبر 1958 کے نئے قانونی حکم کے نفاذ کے ذریعے بے کار کر دیا گیا تھا۔
اس طرح دوسو کیس بالواسطہ مارشل لاء کے نفاذ کو چیلنج کررہا تھا اور 1956 کے آئین کو برقرار رکھنے کا باعث بننے والا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر 1958 کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف متفقہ طور پر کیس کا فیصلہ کیا، 10 اکتوبر 1958 کے نئے قانونی حکم نامے کو تسلیم کرتے ہوئے، وفاقی حکومت کے مقدمات اور اقدامات کے خلاف اپیلیں سننے کے لیے عدالتوں کا اختیار چھین لیا۔نتیجتا 1956 کا آئین، جو ملک کا پہلا آئین تھا، منسوخ ہو گیا۔
یہ ملک کی عدالتی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ تھا، کیونکہ اس فیصلے کے بعد ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ 1958 کا مارشل لاء ایک پرامن انقلاب تھا۔ عام لوگوں نے اس کی مخالفت نہیں کی، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس سے خوش ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ فیصلہ مشہور فلسفی ہنس کیلسن کے پیش کردہ ‘نظریہ ضرورت‘ پر مبنی تھا۔
اس سے ملتا جلتا تیسرا کیس بیگم نصرت بھٹو کیس تھا۔ نصرت بھٹو نے 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے دوران اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی قید کے خلاف اعلی عدلیہ سے رجوع کیا۔ یہ کیس بھی جنرل ضیا کی طرف سے مارشل لا کے نفاذ اور آئین کی معطلی کو چیلنج کرتا تھا۔ سپریم کورٹ نے جنرل ضیا کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا تھا۔
اس سلسلے کا چوتھا مقدمہ محمد خان جونیجو کیس تھا۔ محمد خان جونیجو کیس کا پس منظر یہ تھا کہ جنرل ضیا الحق نے 29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ خواجہ محمد شریف بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے نام سے جانے جانے والے اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے صدر کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا ،لیکن قومی اسمبلی کو بحال نہیں کیا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے 1989 میں قرار دیا کہ یہ مردہ معاملہ ہے، کیونکہ نئی اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہیں۔
اس سے ملتا جلتا مقدمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔ یہ کیس خواجہ احمد طارق بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان تھا ۔ اس کیس میں صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے تحلیل کردہ اسمبلیوں کی بحالی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی، مگر ہائی کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا، اور سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ اپنے ہاتھ سے منتخب صدر کی طرف سے برطرفی کے بعد، بے نظیر بھٹو شہید نے صدر لغاری کے عمل کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر لغاری کے حکم کو درست قرار دیا اور اس کی توثیق کی۔
اکتوبر بائیس 1999 کو نواز شریف کی برطرفی کے بعد ایک مقدمہ “ظفر علی شاہ بمقابلہ جنرل پرویز مشرف“کے نام سے عدالتوں میں دائر کیا گیا۔ سپریم کورٹ اس پٹیشن کو مسترد کر دیا ۔
یہ چند مقدمات کا مختصر ذکر ہے، مگر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس نوعیت کے کچھ اور مقدمات بھی موجود ہیں، جن کا گہرائی سے جائزہ لیکر پاکستان کی اعلی عدالتوں کے رجحانات کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کی ایڈ وائس پر صدر نے ایک ایسی قومی اسمبلی کو تحلیل کیا ہے، جس میں قبل ازیں عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہو چکی تھی، اور عام طور پر باور کیا جاتا تھا کہ اس دن اس تحریک پر ووٹنگ ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس اہم مقدمے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ اور اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
♣