پاکستان کے مبینہ راکٹ حملے اور ایک خاتون سمیت پانچ افغان بچوں کی ہلاکت کے بعد طالبان نے پاکستان حکومت کو سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے۔ پاکستانی سفیر کو بھی طلب کیا گیا جبکہ خوست کی سڑکوں پر پاکستان مخالف نعرے لگائے گئے۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسند افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغان طالبان پاکستانی عسکریت پسندوں کو پناہ دینے سے انکار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس 27 سو کلومیٹر طویل باڑ سے بھی مشتعل ہیں، جو اسلام آباد حکومت نےسرحد پر لگائی ہے۔ اسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے اور یہ نوآبادیاتی دور میں کھینچی گئی تھی۔
کنٹر کے صوبائی ڈائریکٹر انفارمیشن نجیب اللہ حسن ابدال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ” سرحد سے متصل مشرقی صوبے کنڑ میں پاکستانی راکٹ حملے کے نتیجے میں پانچ بچے، ایک خاتون اور ایک مرد ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘
افغان حکام کے مطابق اسی طرح کی ایک دوسری کارروائی سرحدی صوبے خوست میں کی گئی اور وہاں بھی مبینہ طور پر مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے تاہم گزشتہ روز طالبان حکومت نے پاکستان کو خبردار کیا ہے۔
حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو ایک آڈیو پیغام بھیجتے ہوئے کہا ہے، ”امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پر ہونے والی بمباری اور حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ ایک ظلم ہے، یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ہم دوبارہ ایسے حملوں کو روکنے کے لیے تمام آپشنز استعمال کر رہے ہیں اور اپنی خودمختاری کا احترام کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پاکستان جان لے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہو گی۔ اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا‘‘۔
پاکستانی فوجی حکام نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
دوسری جانب افغان وزارت خارجہ نے کابل میں تعینات پاکستانی سفیر منصور احمد خان کو طلب کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ احتجاجی مراسلہ پاکستانی سفیر کے حوالے کرنے کے موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر متقی اور نائب وزیر دفاع شیریں اخوند بھی وہاں موجود تھے۔ افغان وزیر خارجہ نے اس پاکستانی کارروائی کو ‘فوجی خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا کہ اسے ان فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر ”شدید تشویش‘‘ ہے اور مشن نقصانات کی تصدیق کر رہا ہے۔
افغانستان کے معروف نجی ٹی وی چینل طلوع نیوز نے خوست میں ہونے والے حملے میں تباہ ہونے والے مکانات کی فوٹیج دکھائی ہے۔ خوست کے ایک مقامی رہائشی کا چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”نشانہ بننے والے تمام افراد بے گناہ شہری تھے، جن کا طالبان یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی طرف سے حاصل کردہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتہ کے روز خوست کے سینکڑوں شہری پاکستان مخالف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
دریں اثناء پاکستان نے افغان ناظم الامور کو طلب کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکے اور ایسے واقعات دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
جمعے کے روز شمالی وزیرستان میں گھات لگا کر ایک حملے میں سات پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پاکستانی نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے خبردار کیا تھا کہ جوابی کارروائی ہو گی۔
تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور یہ پاک افغان سرحد پر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس عسکری گروہ نے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے۔ فروری میں بھی افغانستان سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی فائرنگ میں چھ پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔
گزشتہ ماہ ٹی ٹی پی نے اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے پہلے دن سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائی شروع کرے گی۔ ٹی ٹی پی پاکستانی حکام پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دے، جب کہ افغان طالبان کی جانب سے غیر ملکی جنگجوؤں کو افغانستان چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔
dw.com/urdu