بیرسٹر حمید باشانی
میرے مولا دے دے آزادی۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی، تیرے بندے مانگیں آزادی۔ آزادی کا یہ نعرہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہوتا ہوا، گلیوں اور محلوں میں پہنچا۔ اور اب حالیہ سیاسی بحران کے دوران پاکستان کے پارلیمنٹ ہاوس میں اس کی گونج سنائی دی۔اقتدار سے بے دخل ہونے والی جماعت تحریک انصاف کے پر جوش ممبران نے یہ نعرہ بلند کیا۔ اس کی گونج پارلیمان اور اسلام آباد کے ایوانوں میں سنائی دی۔ مگر یہ ممبران جوش و خروش کے باوجود اس نعرے کے ذریعے وہ تاثر نہیں پیدا کر سکے، جو عموماً اس جادوئی نعرے سے پیدا ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ ایک طاقت ور اور پر اثر نعرہ ہے۔ اس نعرے سے سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نوجوانوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے۔اس نعرے سے ایک سماں بندھ جاتا ہے، جس کے سحر میں لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں۔ نعرے بھی شاعری کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا تاثر قائم رکھنے کے لیے ان کا ایک مخصوص لب و لہجہ اور اسلوب ہوتا ہے۔شاعری کی طرح اس میں بھی حرکات و سکنات، بحر اور وزن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ نعرے کا تاثر پیدا کرنے کے لیے اس کا دل سے لگانا اور دل سے جواب دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نعرہ مکمل اور با معنی ہو۔
مثال کے طور پر اگر آپ نعرہ لگائیں گے “ہم چھین کر لیں گے آزادی” تو ساتھ میں یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ آپ کو کس سے آزادی چاہیے۔ مثلا سامراج سے دے دے آزادی ، ظلم سے دے دے آزادی، یا جبر سے مانگیں آزادی وغیرہ بھی کہنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ سننے والوں کو سمجھ آئے کہ آپ آزادی کس سے مانگ رہے ہیں ، اور کیوں مانگ رہے ہیں۔ لیکن اقتدار سے رخصت ہونے والی جماعت کے جن لوگوں نے آزادی کا نعرہ لگایا ،انہوں نے یہ تو کہا کہ ہم چھین کے لیں گے آزادی، مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ آزادی کس سے چھین کر لیں گے۔
یہ صورت حال دیکھ کر یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی تبدیلی کے نعرے کی طرح آزادی کا یہ نعرہ بھی رائیگاں ہی نہ چلا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس نعرے کے ساتھ جڑا وہ رو مانس بھی ضائع ہو جائے، جو اس نعرے سے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ نعرہ ستر کے آخر اور اسی کی دھائی کے ابتدا میں متعارف ہوا، اور بڑے پیمانے پر نوجوانوں میں مقبول ہوا۔ چنانچہ اس نعرے کے ساتھ بہت لوگوں کا رو مانس اور یادیں ہیں۔ یہ نعرہ آہستہ آہستہ پورے بر صغیر میں پھیل گیا۔
جو لوگ آج یہ نعرہ لگا رہے ہیں وہ یہ نہیں بتا رہے کہ وہ تبدیلی کس سے مانگ رہے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں ، جنہوں نے چند سال قبل تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، اور اس سے بھی زیادہ جوش و خروش سے لگایا تھا۔ اس وقت بھی بہت سارے لوگوں نے توجہ اس طرف دلائی تھی کہ تبدیلی کا نعرہ ایک سنجیدہ نعرہ ہے، اوور یہ نعرہ لگانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کیا تبدیلی چاہتے ہیں، اور کس چیز میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ اگر وہ صرف حکومت میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں، محض چہرے بدلنا چاہتے ہیں، اور ایک پارٹی کو ہٹا کر دوسری پارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، تو اس عمل کو اس نعرے کے تناظر میں تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔ محض حکومت بدلنے سے ایک شخص کی جگہ دوسرا شخص اور ایک پارٹی کی جگہ دوسری پارٹی آ جاتی ہے، مگر اس سے ملک کے اندر اور عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، چنانچہ یہ ایک گمراہ کن نعرہ بن جاتا ہے، جو عوام کو خواب دیکھنے کی دعوت تو ضرور دیتا ہے ، مگر عملی طور پر ان کی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی سے قاصر ہوتا ہے۔
اس طرح کے نعروں سے وقتی طور پر لوگ بہل کر یا جذبات میں آکر آپ کی حمایت تو کر سکتے ہیں، لیکن زیادہ عرصہ تک آپ کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد وہ مایوس ہو جاتے ہیں، یہ ایک ناگزیر صورت ہوتی ہے، جس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے کو ملا۔ یہ خدشہ اپنی جگہ، مگر یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں آزادی مانگنے کی بہت گنجائش اور ٹھوس جواز موجود ہیں۔ لیکن یہ آزادی کس طرح لینی ہے، اس بات کا انحصار آزادی مانگنے والی پارٹی کے نظریات اور طریقہ سیاست پر ہے۔ اگر پارٹی انقلابی سیاست پر یقین رکھتی ہے تو ” تو ہم چھین کے لیں گے آزادی ” کا نعرہ اس کے لیے پسندیدہ ٹھہرے گا۔
نسبتاً کم انقلابی اور اصلاح پسند پارٹیاں ” مرے مولا دے دے آزادی” کے نعرے کو ترجیح دیں گی، لیکن آپ جو بھی راستہ اختیار کریں پاکستان کے سماج میں آزادی مانگنے کی ضرورت موجود ہے۔ اس نقطہ نظر سے اس نعرے کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں آزادیوں پر کئی قد غنیں ہیں، اور اس کے لیے ایک طویل لڑائی کی ضرورت ہے۔
آزادی کے مطالبے کا آغاز معاشی آزادی سے کیا جا سکتا ہے۔ معاشی آزادی کے دو پہلو ہیں۔ پہلا خارجی پہلو ہے، خارجی پہلو کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی ملک یا ریاست اپنے آپ کو بین اقوامی معاشی زنجیروں سے آزاد کروا کر خود کفالتی پر مبنی معاشی نظام قائم نہیں کر لیتی اس وقت تک اس قوم یا ریاست کو مکمل خود مختار یا آزاد ریاست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس طرح کی معاشی آزادی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔
عالمی سامراجی اور مالیاتی نظام سے آزادی کا تصور تیسری دنیا کے کئی ممالک میں ایک مقدس جدوجہد اور عظیم کاز کے طور پر اپنایا گیا، جس کو کئی معاشی انقلاب اور کئی خود مختاری کا نام دیا گیا۔ چنانچہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے، جو دنیا میں معاشی انقلابوں اور انقلابی جدوجہد سے جڑی ہے۔ اس جدوجہد کا نقطہ ماسکہ تیسری دنیا کے غریب ممالک کو عالمی سامراجی زنجیروں، قرضوں، معاشی لوٹ گھسوٹ اور غیر منصفانہ تجارتی اور معاشی رشتوں سے نکالنا رہا ہے۔چنانچہ اس تناظر میں پاکستان میں معاشی آزادی کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کوبطور ریاست غیر ملکی ریاستی دباو اور مالیاتی اداروں کی لوٹ کھسوٹ سے آزاد کرایا جائے، جن کو ہمارے حکمران طبقات مجبوریاں کہتے ہیں۔
اسی طرح داخلی محاذ پر معاشی آزادی سے مراد بھوک ننگ ، غربت اور بے روز گاری سے آزادی ہے۔ طبقاتی لوٹ کھسوٹ اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے آزادی ہے۔ اس طرح داخلی سطح پر معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی آزادی کی ضرورت ہے۔ سماجی پسماندگی اور سماجی جبر سے آزادی مانگ کر سماجی انصاف پر مبنی سماج کا قیام بھی آزادی کی جدوجہد کا ایک بنیادی نقطہ ہے۔ ظلم، جبر اور نا انصافی سے پاک سماج کے قیام کا مطلب ایک ایسا سماج ہے، جس میں ہر شخص کو سماجی و معاشی انصاف میسر ہو۔ سماج میں سوچ و فکر کی آزادی ہو۔ ذرائع ابلاغ آزاد ہوں۔ سماج میں ہر شخص کو اپنی بات کہنے اور سننے کی آزادی موجود ہو۔ بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو نا صرف قانونی اور آہنی تحفظ حاصل ہو، بلکہ عملی طور پران چیزوں پر عمل کرنے کی ضمانت میسر ہو۔
اس طرح پاکستان میں معاشی و سماجی آزادی کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی موجودگی میں نعروں کی گنجائش بھی موجود ہے۔ مگر ان نعروں کا حشر تبدیلی کے نعروں کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست میں تبدیلی کا مطلب صرف نئے نعرے اپنانا نہیں ہوتا، بلکہ پرانے ناکام اور تلخ تجربات کی روشنی میں ایک نئے ویزن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بغیر ہر نعرہ بےکار ہے، خواہ وہ کتنا انقلابی ہی کیوں نہ ہو۔
♣