مہرجان
(تشدد و عدم تشدد )
“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری)
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ بابا مری دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر ایسے ہی جانتے تھے جیسے مکالمات افلاطون میں سقراط (افلاطون) کو نہ صرف لمبی لمبی و طویل تقاریر کے ہنر سے آشنا ہی تھی بلکہ اس کے پہلو پہ پہلو اختصار و ایجاز کے پہلو سے بھی انتہا کا عبور حاصل تھا ۔ایک طرف بابا مری مخصوص اسٹڈی سرکلز میں ایک ایک موضوع پہ چاہے فلسفہ ہو یا تاریخ ہو ادب ہو یا دیگر سیاسی موضوعات ہوں بابا آٹھ آٹھ گھنٹے بغیر کسی توقف کے بولتے تھے انکی تقریر پہ بھی تحریر کا گماں ہوتا تھا ۔
ان کی اگر زندگی میں کوئی خواہش رہی ہے تو یہی کہ “چار بلوچ میری بات کو سمجھ کر قومی حقوق کی جدوجہد کے لیے کمر ہمت باندھ لیں “ ۔ اور دوسری طرف اختصار کا پہلو اس قدر کہ “مزاحمت (مسلح )ہی دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے”، مختصر مگر جامع یہ دونوں پہلو (طوالت و اختصار) بابا اپنی شخصیت میں سمائے ہوئے تھے۔ اور یہ باتیں وہ بندہ کہہ رہا تھا جو مکھی مارنے کو بھی جرم سمجھتا تھا ، یہ بالکل اسی طرح ہے کہ بُدھا آج کے دور میں اُٹھ کر عشق میں سرمست ہوکر مزاحمت کی راہ اپنا رہا ہو ۔
واقعی مقصود اگر قومی آزادی ہو ، ڈی کالونائزیشن ہو ، تو پھر زمینی حقائق سے منہ موڑ کر فقط جھنڈے اٹھانے کی سیاست سے قابض ریاست کو اتنی زیادہ تکلیف نہیں پہنچتی جتنی ہتھیار کی زبان ہی قابض کو خواب غفلت سے جگانے ، قابض کو انسانیت کے درجے میں لانے اور دوسروں (مظلوم) کو انسان سمجھنے میں زیادہ معاون کار ثابت ہوتی ہے۔ ہتھیار کی اک اپنی الگ زبان ہوتی ہے ، یعنی کہ “ہتھیار اپنی زبان آپ ہوتا ہے” بابا مری کی خاموشی میں ہتھیار کی زبان پائی جاتی تھی ، اور یہی دشمن کو تکلیف پہنچاتی تھی کہ کاش بابا مری اپنی زبان سے کچھ بولے ، تاکہ نفسیاتی حکمت عملی کا پتہ چل سکے ۔
لیکن بابا مری ہمیشہ ناپ تول کر بولتے ، چالیس چالیس لوگ جب بابا مری کے پاس جاتے تو تین تین گھنٹے خاموشی سے سن کر ان کو رخصت کرتے ، مجال ہے کہ وہ اپنی بات سامنے رکھتے ،بھٹو سے لے کر کئی صحافی حضرات ملنے کی تمنا کرتے ، قابض حکمران قاصد بھیجتے ،لیکن وہ کبھی سستی شہرت کے جھانسے میں نہ آتے ، انکی “خاموشی کا مراقبہ” ان پہ اتنا حاوی تھا کہ اس مراقبہ سے جو آواز گونجتی تھی وہ آواز “مسلح مزاحمت” کی تھی ۔جو دشمنوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ تھی ، بابا مری بلوچ قومی تاریخ میں وہ واحد شخصیت تھے “جن کی خاموشی سے دشمن زیادہ خوفزدہ تھا”۔
اسی لیے مرنے کے بعد بھی ان کی قبر سے زیادہ خوفزدہ رہی ، ریاست کی یہ کوشش رہی کہ بابا مری کو کسی بھی صورت چلتن کے دامن میں جگہ نہ ملے جس کے لیے باقاعدہ سی ون تھرٹی (ہیلی) کو تیار رکھا گیا تھا کہ کسی بھی طرح انہیں کوہلو لے جایا جائے لیکن بلوچ قوم کے بیٹے اور بیٹیاں انہیں اپنے زور بازو پہ نیو کاہان لے آئے، عام لوگ یہی سمجھتے رہے کہ آفتاب غروب ہوا، لیکن دشمن کو پتہ تھا یہ کفن کے پیراہن میں بھی ایک مضبوط توانا آواز ہے ،جس کے جنازے پہ ٹریبیون نے لکھا
“They came back in coffins”
بابا مری نے قومی وجود کو جوہر سے کاربند کرنے کے لیے مزاحمت کی راہ کو بہتراس لیے سمجھا تاکہ “قومی شعور بالغ ہو”، جو کہ بقول بابا مری ابھی “طفلی سطح پر ہے” ، یہ شعور عمومی تعلیم سے بالغ نہیں ہوتا اک دفعہ بابا مری سے کسی نے پوچھا کہ مری جو عمومی تعلیم حاصل نہیں کرتے وہ کیسے سیاسی تعلیم کیسے حاصل کر پائے ، مزاحمت (مسلح جدوجہد) دراصل تاریخ میں پائی جانے والی حرکت میں تیزی لاکر قومی و سیاسی بالیدگی کا باعث بنتی ہے ،اس لیے بابا مری نے جوابا عرض کیا کہ “میں نے کچھ نہیں کیا بس ان کو فوج کے سامنے کھڑا کیا” ۔
بالکل اسی انداز میں ھیگل نے جہاں تاریخ میں حرکت کو ہیراقلیطس سے زیادہ واضح اورشفاف انداز میں دیکھا ،وہاں میرے خیال میں بابا مری کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی آنکھ نے بھی فطرت کو ایسے عُریاں دیکھا کہ بقول اقبال “ رازداں پھر نہ کرے گا کوئی پیدا ایسا” ، فطرت میں تہہ در تہہ حرکت ،محکوم اقوام کی قومی تاریخ میں سب سے زیادہ “مسلح جدوجہد” کی بدولت ہی محرک اور دشمن کی شکست خوردگی اور ہزیمت کا سبب بنی ہے اور ڈی کالوناہزیشن کی بنیاد ڈال کر تاریخ میں قومی کردار کو ابھارتی رہی ہے ۔
فطرت کی تہہ در تہہ حرکت دراصل فطرت میں تہہ در تہہ مزاحمت کی بدولت ہے اسی تاریخی و قومی “حقیقت پسندی” کو فرانز فینن سے لے کر بابا مری تک سمجھا گیا اور جانا گیا ، تب ہی بابا مری نے فرانز فینن کی کتاب “افتادگان خاک “ کو بلوچ قوم کے لیے بائبل کہا جس میں نوآبادیاتی تشدد کے میکنزم اور محکوم کی طرف سے جوابی تشدد کے میکنزم پہ سیر حاصل بحث ہوئی ہے ، فقط عدم تشدد کو مذہب کے طور پہ بطور عقیدہ اپنانا کبھی بھی ڈی کالونائزیشن کا سبب نہیں بنا ۔
تاریخ میں ہر نیلسن منڈیلا سے پہلے ایک میلکم ایکس بھی ہوا کرتا ہے ، وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر تشدد یا عدم تشدد کی کسی ایک راہ کو منتخب کرنا دانشمندی اور فطرت ہے ، وقت کے مختلف تقاضوں سے لاپرواہ ہو کر فقط ایک پہلو پہ ہمیشہ کے لیے اکتفاء کرنا تاریخ کی حرکت پذیری سے نابلدی کے سوا کچھ نہیں ۔ بقول بابا مری جب آپ پہ ایک ایسی کلاس حکمرانی کریں جو دلیل ،منطق ، تاریخ ،زمینی حقائق اور جمہوری کلچر سے نابلد ہو وہ صرف اک زبان یعنی تشدد کی زبان جانتی ہو تو وقت کا تقاضا عدم تشدد نہیں بنتا ۔
اسی طرح کی کم و بیش نتیجے پہ سردار عطاءاللہ مینگل بھی اسّی و نوے کی دہائی میں پہنچ گئے تھے ، ڈاکٹر سید جعفر احمد کے ایک سوال “کہ کیا زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ جمہوریت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ پنجاب کو فریق بنانے کے بجائے غیر جمہوری قوتوں اور اداروں کو فریق بناتے ؟ تو سردار عطاءاللہ مینگل یوں گویا ہوئے”اس ملک میں جمہوریت قطعا نہیں آئےگی ۔ یہ میرا یقین ہے کیونکہ اب پاکستان اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں سے اب وہ واپس نہیں آسکتا ۔جب تک پاکستان رہیگا اسی رسوائی کے ساتھ اسی خرافات کے ساتھ اس کو رہنا پڑے گا جو آج ہے “۔
جو لوگ عدم تشدد کو وقتی و تاریخی تقاضوں کے بغیر مستقل طور پہ بطور عقیدہ اپناتے ہیں وہ لوگ عدم تشدد کے حوالے سے اخلاقی برتری کی دلیل کثرت سے دیتے ہیں ، جو کہ ظالم کے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتی، اگر ظالم کے لیے اخلاق معنی رکھ رہا ہوتا تو وہ کبھی بھی ظلم کا مرتکب نہ ہوتا، مستقل عدم تشدد کو بطور اصول اپنانا عظیم واقعات کے دباؤ میں ہمیشہ کے لیے کارگر نہیں ہوتا ، کیونکہ تاریخ میں ہر زمانہ نئے حالات و واقعات سے دوچار ہوتا رہتا ہے ، اس لیے کسی ایک اصول کو مستقل طور پہ اپنانا بقول ھیگل یہ اسی طرح سطحی ہوگا کوئی”انقلاب فرانس کے بیان میں یونانی اور رومی مثالوں کا بار بار ذکر چھیڑ دے“۔
اسی طرح مذہبی رنگ سے بالاتر ہوکرا گر پیغمبر اسلام کی حقیقت پسندی کو دیکھا جائے تو مکی و مدنی ادوار میں عدم تشدد و تشدد کے تقاضے الگ الگ تھے مکی دور میں ہاتھ بندھے رکھنے (عدم تشدد) کا حکم تھا جبکہ مدنی دور میں جہاد کا حکم تھا ، تاریخ میں وقت کے تقاضوں کو بہر حال دیکھنا بے حد ضروری ہے جہاں معقولیت (ریزن) پورے جلال و جمال کے ساتھ اپنے آپ کو آشکار کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ گاندھی کی یہ دلیل کہ آنکھ کے بدلے آنکھ کا قانون اگر لاگو ہوا تو کوئی بھی آنکھ نہیں بچے گی ، جبکہ ہم سمجھتے ہیں اگر یہ قانون وقتی تقاضوں کے مطابق لاگو نہ ہوا تو بصارت رکھنے والی آنکھوں کا فقدان ہوگا ،اوراس کے نتیجہ میں بد طینت کور دیدہ لوگ حکومت کریں گے، کیونکہ ان لوگوں کو اپنی آنکھیں ضائع ہونے کا خوف کا کبھی نہ رہے گا اور بصیرت سے بھر پور آنکھوں کو ضائع کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور یوں دنیا آنکھیں تو رکھے گی لیکن بصارت سے محروم ہوگی ۔
عدم تشدد کے فلسفہ پہ اگر کوئی مستقل طور پہ عمل پیرا ہوکر یہ سمجھتا ہے کہ اس فلسفہ میں تشدد کا پہلو کہیں پر نہیں ہے تو وہ فطرت میں موجود جدلیاتی طریق کار کی بصیرت سے بے بہرہ ہوگا کیونکہ عدم تشدد میں تشدد کا پہلو دوہراہے ایک آپ مسلح دشمن کے خلاف مسلح مزاحمت نہ کرکے دشمن کو تشدد کا رستہ مکمل طور پہ نہیں روک پار ہے ،بھلے آپ تحریر و تقریر سے اس کی خلاف نبرد آزماء ضرور ہیں لیکن آپ کی تحریر و تقریر سے مسلح دشمن کا تشدد جاری ہے جس سے غلامی کی زنجیر طویل رہے گی ۔
دوسرا پہلو آپ جب اپنے انتقام کی آگ کو روک رہے ہوتے ہیں تو آپ دراصل اپنے اوپر ذہنی تشدد کررہے ہوتے ہو ،صرف یہاں تشدد کی شکل بدل جاتی ہے تشدد کے وجود کا خاتمہ نہیں ہوتا ،جس طرح عدم تشدد میں تشدد کا پہلو پایاجاتا ہے اسی طرح تشدد میں عدم تشدد کا پہلو بھی پایا جاتا ہے ،تشدد میں عدم تشدد کے پہلو کو نہ دیکھ کر اس عمل کو برا کہا گیا لیکن یہ ذی شعور عمل میں عدم تشدد کا پہلو نمایاں ہے جہاں قابض کی تشدد کو ختم کیا جاتا ہے۔
یہ بات کہ اس عمل سے انسان میں اسلحہ کے استعمال کی لت پڑ جاتی ہے یعنی کہ غیر انسانی اور بہیمانہ عمل کے شکنجہ میں آکر پھنس جاتا ہے، اس بہیمانہ عمل سے ظالم فطرت ، شرپسند اور قبضہ گر عناصر کبھی بچ کر نہیں جاسکتے جس کی بندوق کسی نظریہ ، فہم و شعور کے تابع نہیں ، وہ بندوق کا تابع ہوکر رہ جاتا ہے ، یہ دوسری انتہا ہے جو فطری حکمت عملی کے سراسر خلاف ہے لیکن گر بندوق نظریہ ، فہم و شعور و عشق کا تابع ہوا تو کبھی بھی اس بہیمانہ عمل سبب نہیں بن سکتا نہ اپنے لیے نہ ہی دوسروں کے لیے ، بندوق سے گولی کسی ایسے شخص کے لیے نہیں نکلتی کہ وہ شخص کمتر ہے اور نہ ہی بندوق اٹھانے والا احساس برتری میں معتبری و غرور کے لیے یہ عمل کررہا ہوتا ہے بلکہ تشدد کا یہ عمل ظالم کو مارکر عدم تشدد کے لیے راہ ہموار کررہا ہوتا ہے ۔
جونہی غلام آقا کی نقل کرکے اس زعم و برتری کا شکار ہوا اور بندوق کو نظریہ ، شعور و فہم و عشق کا تابع نہ کیا تو پھر زندگی و جہد بے معنی ہوتی ہے جس کی طرف بہت سے لکھاریوں نے اشارہ کیا ہے لیکن جو بندوق نظریہ، فہم و شعور کا پاپند ہو وہ کبھی بھی بیگانگی کا سبب نہیں بن سکتا ۔ اس لیے قومی تاریخی جہد میں یہ دیکھنا لازمی امر ہے کہ اس جہد کی بدولت نہ صرف قومی وجود تاریخی مراحل میں آشکار ہو تا رہے بلکہ معقولیت بھی جلوہ گر ہوتی رہے ، تاکہ جذبہ کو معقول رستہ ملنے سے قومی اور اجتماعی سپرٹ (جذبہ و تعقل ) کی تشکیل ہو ، یہی کسی بھی قومی وجود کے لئے تاریخ کے فلسفہ (فلسفہ تاریخ) میں پیمانہ ہے۔
(جاری ہے)
Pingback: میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟۔حصہ 14 – Niazamana