افغان طالبان نے ملک ميں عورتوں کے ليے برقعہ پہننا لازمی قرار دے ديا ہے۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والی خواتين کے قريبی مرد رشتہ داروں کو قيد اور نوکريوں سے برطرف بھی کيا جا سکتا ہے۔يہ طالبان کی جانب سے عورتوں کے حوالے سے اب تک کا سخت ترين قدم ہے۔
افغان طالبان کے سپريم ليڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے ايک حکم نامہ جاری کيا گيا ہے، جس کے تحت ملک ميں تمام خواتین کے ليے برقعہ پہننا لازمی ہو گيا ہے۔ ہفتہ سات مئی کو دارالحکومت کابل ميں منعقدہ ايک تقريب ميں مذکورہ حکم نامہ جاری کيا گيا۔ اس کے مسودے کے تحت، ‘عورتوں کو چادر اوڑھنی چاہيے، جو روايات کے مطابق ہے اور احترام کا تقاضہ کرتی ہے۔‘ حکم نامے ميں مزيد لکھا ہے، ”جو لڑکياں کم عمر ہيں، انہيں آنکھوں کے سوا اپنا چہرہ مکمل طور پر ڈھکنا لازمی ہے، جيسا کہ شريعہ ميں بيان کيا گيا ہے۔ يوں نامحرم مردوں سے ملتے وقت ان مردوں کے ذہنوں ميں غلط خيالات نہيں آئيں گے‘‘۔
طالبان کی متعلقہ وزارت نے حکم نامے کی تفصيلات بيان کرتے وقت کہا کہ اس پر عملدرآمد نا کرنے کی صورت ميں خواتين کے والد يا قريبی رشتہ دار کو پکڑا اور قيد کيا جا سکتا ہے۔ اگر وہ سرکاری ملازمت کرتے ہيں، تو انہيں نوکری سے فارغ بھی کيا جا سکتا ہے۔
طالبان کی اس سے قبل سن 1996 سے لے کر سن 2001 تک افغانستان ميں حکومت تھی۔ اس دور ميں بھی سخت اسلامی قوانين نافذ تھے۔ افغانستان ميں موجودہ دور ميں اکثريتی خواتين مذہبی عقائد کی بنياد پر سر پر اسکارف پہنتی ہيں اور پردہ بھی کرتی ہيں۔ مگر بڑے شہروں ميں عورتيں چہروں کو نہيں چھپاتيں۔
گزشتہ برس اگست ميں طالبان کی افغانستان پر عمل داری کے بعد سے يہ ملک شديد اقتصادی مسائل ميں گھرا ہوا ہے۔ بين الاقوامی برادری کا مطالبہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کو يقينی بنايا جائے تاہم طالبان پے در پے ايسے اقدامات کر رہے ہيں، جن سے عورتوں کے ليے رکاوٹيں بڑھتی جا رہی ہيں۔
کچھ عرصہ قبل طالبان نے لڑکيوں کے اسکول کھولنے کی اجازت دينے کے بعد ‘يو ٹرن‘ لے ليا اور لڑکيوں کی تعليم رکوا دی، جس کی عالمی برادری نے کافی مذمت بھی کی۔ حاليہ مہينوں ميں ايسے کئی ديگر اقدامات بھی اٹھائے گئے ہيں۔ مردوں اور عورتوں کے يکساں وقت پر پارکوں ميں جانے پر پابندی ہے جبکہ خواتين کو تنہا سفر کرنے کی اجازت بھی نہيں ہے۔
dw.com/urdu