محمد شعیب عادل
یہ جو کہا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بھی اونچی، سمند ر سے گہری اور شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔ اب ہمیں اس خود فریبی سے باہر نکل آنا چاہیے۔ پاکستان دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک سے تعلقات قائم کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم بھیک مانگنے کی بجائے دو طرفہ تجارت کی بات کریں۔رہی بات انفراسٹرکچر ڈویلپ کرنے کی تو دنیا کے کسی بھی ملک سے مدد لی جا سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کن شرائط پر؟
مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی اداروں سے جو بھی تجارتی یا مالی امداد لی جاتی ہے وہ اوپن معاہدے ہوتے ہیں جبکہ چین سے جو معاہدے کیے جاتے ہیں وہ اوپن نہیں ہوتے۔ اور پھر چین جو قرضہ فراہم کرتا ہے اس کی شرح سود عالمی مالیاتی اداروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا ایشیائی ترقیاتی بینک، چار فیصد سود پر قرض دیتا ہے تو چینی قرضوں کی شرح سود چھ فیصد ہوتی ہے۔پچھلے سالوں میں آئی ایم ایف کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ جو قرضے چین سے لیے گئے ہیں، آئی ایم ایف کو ان شرائط سے آگاہ کیاجائے؟ اور ہمارے دیے گئے پیسے سے چین کا قرضہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔
ماہر معاشیات، عاطف میاں، نے سی پیک پر بنیادی اعتراض یہی اٹھایا تھا کہ ایک تو اس کی مشنری کی اوور انوائسنگ کی گئی ہے یعنی جس مشنری کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 80 ڈالر کی ہے چین 100 ڈالر کی چارج کرتا ہے۔ اور چین جو قرض دے رہا ہے اس کی شرح سود کم ازکم چھ فیصد ہے۔ پھر مغربی ممالک کے کنٹریکٹرز جو ترقیاتی منصوبے مکمل کرتے ہیں، اس کے لیے وہ مقامی سب کنٹریکٹرز کے ذریعے مقامی افراد کو بھی بھرتی کرتے ہیں ۔ جبکہ اس کے برعکس چین تما م منصوبوں پر اپنی ہی افرادی قوت امپورٹ کرتا ہے اور ان کی حفاظت کے نام پر سیکیورٹی گارڈز (چینی فوج) بھی آتی ہے جن کی تنخواہیں قرضے میں شامل ہوتی ہیں۔ پھر عاطف میاں نے فوج کا نام لیے بغیر غیر ترقیاتی اخراجات ( جس میں 80 فیصد دفاعی اخراجات ہیں ) کو کم کرنے کی بات کی تھی اور کہا تھا کہ جب تک یہ اخراجات کم نہیں ہوتے، آپ کا قرضہ بڑھتا رہے گا ۔
اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ حکومتوں نے اس منصوبے پر گہرے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ سی پیک کے اوریجنل ڈیزائن میں سڑک اور ریل بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سے ہوتی ہوئی چین سے ملنا تھی لیکن 2013 میں نوازشریف دور میں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی سیاسی قیادت نے الزام لگایا تھا کہ نواز حکومت نے سی پیک کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے اور سڑک اور ریلوے ٹریک کو پنجاب سے گذار کر چین سے ملایا جارہا ہے جس سے منصوبے کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا۔اس وقت کے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے،قومی اسمبلی میں بارہا وعدوں کے باوجود کبھی بھی سی پیک منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
اب پچھلے پندرہ بیس سالوں میں بلوچستان کی سیاسی صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ سی پیک پر عملاً کام ناممکن ہوچکا ہے۔اگر کام شروع بھی ہوتا ہے تو بلوچ مسلح تنظیموں کی طرف سے اس پر مسلسل حملے کیے جائیں گے اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ایک دوست کا کہنا ہے کہ چین سی پیک کے لیے براہ راست مزاحمتی گروہوں سے ڈیل کرے گا ۔۔۔ کیا پاک فوج اس کو برداشت کرے گی، کیا پاک فوج اپنی سپیس خالی کرنے کو تیار ہوگی؟
حکومت پاکستان اگر سی پیک شروع کرنا چاہتی ہے تو اس منصوبے کی تفصیلات سے نہ صرف عوامی نمائندوں کو آگاہ کیا جائے بلکہ مقامی آبادی کو اس میں شریک کیے بغیر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔
♣