لیاقت علی
اپریل 1979میں بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد جنرل ضیا الحق نےاسلامائزیشن کا عمل تیزی سے شروع کر دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بھٹو کی پھانسی سے توجہ ہٹانے اوراپنے غیر قانونی اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مذہبی ہتھیار بہت کار آمد اورآزمودہ ہے۔1980 وہ سال تھا جس میں جنرل ضیا نے وفاقی شرعی عدالت قائم کی تھی۔ پاکستان جیسی شرعی عدالت دنیا کسی بھی مسلم ملک میں پہلے موجود نہیں تھی اور نہ اب ہے۔
مارشل لا کے ضابطہ کےتحت قائم ہونے والی اس عدالت کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ یہ عدالت اس امر کا جائزہ لے گی کہ ملک میں نافذ کون سا قانون قرآن و سنت اوراسلامی اصولوں سےمطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔وفاقی شرعی عدالت کو جو کام سونپا گیا تھا کہ اس کے قیام سے قبل یہی کام اسلامی نظریاتی کونسل کر رہی تھی جب کہ خود آئین میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اس لئے کسی ایسی عدالت کا قیام جو قوانین کی شرعی حیثیت کا تعین کرے مور اوور کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ خود فوجی حکومت کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ جو کچھ وہ مذہب کی آڑ میں کررہی ہے اس کا مقصد محض لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت آٹھ ججوں پر مشتمل ہے جن میں سے پانچ جج سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان ہوتے ہیں یا کوئی ایسا شخص جو ہائی کورٹ کا جج بننے کی شرائط پر ہورا اترتا ہو۔ تین جج صاحبان کا انتخاب علما میں سے کیا جاتا ہے۔ ان ججوں کی تقرری کا اختیار صدر پاکستان کو حاصل ہے جو اس ضمن میں چیف جسٹس کے مشورے سے یہ تقرریا ں کرتے ہیں۔
سنہ1985 میں ہوئے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی نے مارشل لا ختم کرنے کے صلے کے طور پر جب آٹھویں ترمیم منظور کی تھی تو جہاں مارشل لا کے تمام اقدامات کو آئینی اور قانونی تحفظ دیا گیا تھا وہاں اس کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت کو بھی آئین کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ چند سال قبل جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین کی اوور ہالنگ کی گئی تو نواز شریف کے ایما پر مذہبی لابی کو خوش کرنے کے لئے ضیا کے مارشلائی دور میں کئے گئے جن متعدد آئینی ترامیم اور اضافوں کو چھیڑنے سے گریز کیا گیا تھا ان میں وفاقی شرعی عدالت بھی شامل تھی۔
وفاقی شرعی عدالت کو قائم ہوئے 37برس بیت چکے ہیں ان سالوں میں اس کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے سوائے اس کے حکومتیں اپنے حواریوں اور ہمدردوں کو اس عدالت میں تقرری سے نوازتی ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت دین اسلام کی کوئی ایسی تعبیر و تفسیر کرنے میں ناکام رہی ہے جو عہد جدید کے سماجی اور معاشی معیارات پر پوری اترتی ہو۔ یہ عدالت قرون وسطی کے عہد ملوکیت ہی کو اصل دین اسلام خیال کرتی ہے اور اس کے مطابق جدید دور کے مسائل کو دیکھتی اور پرکھتی ہے۔جمہوریت ہوں یا انسانی حقوق یا پھر مذہبی اقلتیوں کے مسائل اس بابت وفاقی شرعی عدالت کی توجہ بالکل نہیں ہے۔
سنہ1989 میں وفاقی شرعی عدالت نے ایک ایسا فیصلہ دیا جو پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں،ہاریوں اور کھیت مزدروں کے حقوق سے متصادم تھا اور جاگیرداروں کو قانونی جوازتحفظ کرتا تھا۔ شرعی عدالت نے قزلباش ٹرسٹ کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ زرعی اصلاحات خلاف اسلام ہیں۔
اس فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت کے جج صاحبان نے قرار دیا تھا کہ وراثت میں ملی جاگیرداریوں اور مذہبی مقاصد کے لئے وقف کی گئی جاگیروں کا خاتمہ خلاف اسلام ہے اور اگر حکومت ان سے یہ زمینیں لینا چاہتی ہے تو حکومت کو ان کے مالکان کو اس کا معاوضہ ادا کرے۔ اس فیصلےنے ملک میں جاگیرداری نظام کو نہ صرف مضبوط کیا بلکہ کسانوں کے حقوق کو اسلام کے نام پر روند ڈالا تھا۔ عدالت نے اپنے اس فیصلے میں بھٹو دور میں کی گئی زرعی اصلاحات کو خلاف اسلام قرار دیا تھا۔عدالت کے ایک جج اور معروف عالم دین نے اس فیصلے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ بڑی بڑی جاگیرداریوں کا خاتمہ اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے۔
چند سال قبل معروف قانون دان اور بائیں بازو کے رہنما عابد حسن منٹو نے شرعی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے فائل پر لکھا تھا کہ اس کیس کی شنوائی روزانہ کی بنیاد پر کی جائے اور اس کا فیصلہ جلد از جلد ہونا چاہیے۔ انھوں نے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس کیا تھا کہ وہ اس پر اپنا موقف عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے تمام اخبارات میں اشتہار بھی دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو کوئی بھی اس کیس میں فریق بننا چاہتا ہے وہ آئے اور عدالت سے رجوع کرے۔
زمینداروں کی طرف سے تحریک انصاف کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی پیش ہوئے تھے۔ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی حکومتوں نے قزلباش ٹرسٹ کیس میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا دفاع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ کچھ دن تو یہ کیس چلا پھر جونہی افتخار محمد چوہدری ریٹائر ہوئے تو یہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔
اب یہ کیس سپریم کورٹ میں پڑا ہوا ہے لیکن فکس نہیں ہورہا۔ حکومت ہو یا ہماری اپوزیشن کسی کو دل چسپی نہیں کہ اس کیس کا فیصلہ ہو کیونکہ سیاسی تقسیم کے دونوں اطراف جاگیردار اور ان کے حواری موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ ملک سے جاگیرداری کا خاتمہ ہو۔ کیس کی اب تک کی پیش رفت سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کیس کا فیصلہ ہونا ممکن نہیں ہے۔
♠
One Comment