بیرسٹر حمیدباشانی
سری لنکا ہمارے خطے کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ اس کی کل آبادی بائیس ملین ہے۔ پاکستان سے اس کا کوئی تقابل نہیں۔ رقبے اور آ بادی کے اعتبار سے پاکستان اس سے کئی گنا بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس نسبتاً بڑی معیشت اور طاقتور فوج ہے۔لیکن اس کے باوجود ان میں بہت سارے معاملات میں مماثلت بھی ہے۔ یہ مماثلت دونوں ملکوں کو در پیش موجودہ معاشی بحران سے جھلکتی ہے۔ دونوں کو عالمی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں۔ دونوں کو کرنٹ اکاونٹ اور بجٹ میں شدید قسم کے خسارے کا سامنا ہے۔ دونوں کی کرنسی کی قیمت تیزی سے گر رہی ہے۔ دونوں کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ دونوں بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اس بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف اور چین سے مدد کے خواستگار ہیں۔ اور دونوں میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے دونوں کی معاشی پالیسیاں اور طرز عمل ایک جیسا رہا ہے۔ ملک کو بیرونی قرضوں اور امداد کے سہارے چلانے کی روش اور آمدنی سے زیادہ اخراجات کی روایات پر اصرار دونوں میں مشترکہ رہا ہے۔ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھلانے والے قدیم مشورے میں بڑی گہرائی اور دانائی ہے۔ جو اس کے بر عکس عمل کرتے ہیں، مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ خواہ وہ افراد ہوں یا ممالک۔ اس وقت سری لنکا جن حالات سے گزر رہا ہے، اس میں پاکستان کے لیے بڑا سبق ہے۔ اگر کوئی دیوار پر لکھا پڑھنے کی زحمت کرے ۔
سر لنکا میں اس وقت بے چینی ہے۔ مظاہرین پولیس سے متصادم ہیں۔ عوام کا غصہ تشدد میں بدل رہا ہے۔وہ اپنے لیڈروں کے گھر نذر آتش کر رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں سینکڑوں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ کئی گھنٹوں تک جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ حالات سری لنکا کے صدر گوٹا بایا راجا پاکسے کی جانب سے 22 ملین افراد پر مشتمل جزیرہ میں گہرے ہوتے معاشی بحران سے نمٹنے میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔ سری لنکا کا موجودہ بحران غیر ملکی کرنسی کی شدید قلت سے شروع ہوا۔ اس قلت کی وجہ راجا پاکسے کی حکومت ایندھن سمیت ضروری درآمدات کی ادائیگی کرنے کے قابل نہیں رہی۔ قرض کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت سے قبل گزشتہ ماہ ملک کی کرنسی کی قدر میں زبردست کمی کے بعد سری لنکا کے عام لوگ بھی قلت اور بڑھتی ہوئی افراط زر سے نمٹ رہے ہیں۔
بحران یک دم نہیں آیا۔ اور ایسا بحران یک دم نہیں آتا۔ اس بحران کی جڑیں دہائیوں میں پیوست ہیں۔کئی دہائیوں سے یکے بعد دیگرے سری لنکا کی حکومتیں معاشی بد انتظامی کا شکار رہی ہیں، جنہوں نے جڑواں خسارہ پیدا کیا، اور اسے برقرار رکھا ۔بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی ریت و عادت اپنائی اور اس پر اصرار کیا۔ یہ جڑواں خسارہ کیا ہے؟ ایشیائی ترقیاتی بینک کے 2019 کے ور کنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ سری لنکا جڑواں خسارے والی معیشت کی ایک کلاسیک مثال ہے۔ جڑواں خسارے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ کسی ملک کے قومی اخراجات اس کی قومی آمدنی سے زیادہ ہیں، اور یہ کہ قابل تجارت سامان اور خدمات کی پیداوار ناکا فی ہے۔
موجودہ بحران سے پہلے انتخابی مہم کے دوران راجا پاکسےنے ہر قیمت پر انتخابات جیتنے کا قصد کیا۔ خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اور عوام سے کتنے ہی غیر حقیقی اور تصوراتی وعدے کرنے پڑیں، جن کے پورے ہونے کاحقیقی دنیا میں بے شک کوئی سوال ہی نہ ہو۔ ہر قیمت پر انتخابات جیتنے کی خواہش نے ان کی ٹیکسوں میں گہری کٹوتیوں کا عمل کروایا،جس نے سری لنکا کی معیشت کے کچھ حصوں کو ختم کر دیا تھا۔
ملک کی منافع بخش سیاحت کی صنعت اور وبائی امراض کے باعث غیر ملکی کارکنوں کی ترسیلات زر میں کمی کے ساتھ، کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں سری لنکا کو نیچے کی طرف لے گئیں اور اسے مؤثر طریقے سے بین الاقو امی کیپٹل مارکیٹوں سے باہر کر دیا۔
اس کے نتیجے میں سری لنکا کا قرض مینجمنٹ پروگرام، جو بیرونی منڈیوں تک رسائی پر منحصر تھا، پٹڑی سے اتر گیا اور زر مبادلہ کے ذخائر دو سالوں میں تقریباً ستر فیصد تک گر گئے۔ راجا پاکسے حکومت کے 2021 میں تمام کیمیائی کھادوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ، ایک ایسا اقدام جسے بعد میں تبدیل کر دیا گیا،مگر اس سے ملک کے فارم سیکٹر کو بھی نقصان پہنچا اور چاول کی اہم فصل میں شدید کمی ہوئی۔
فروری تک، ملک کے پاس اس کے ذخائر میں صرف 2.31 بلین ڈالر رہ گئے تھے۔ لیکن اسے 2022 میں تقریباً 4 بلین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کا سامنا ہے، جس میں جولائی میں 1 بلین ڈالر کا بین الاقوامی بانڈزبھی شامل ہیں۔یہ بانڈز غیر ملکی قرضوں کا سب سے بڑا حصہ بناتے ہیں، جس میں ایشیائی ترقیاتی بینک، جاپان اور چین دوسرے بڑے قرض دہند گان میں شامل ہیں۔ انٹر نیشنل سورن بانڈ میں سری لنکا کا غیر ملکی قرضہ بارہ اعشاریہ پچپن بلین ڈالر ہے۔
گزشتہ ماہ جاری کردہ ملکی معیشت کے جائزے میں، آئی ایم ایف نے کہا کہ عوامی قرضہ خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر قرض کی قریبی مدت کی ادائیگی کے لیے ناکا فی ہیں۔ اسی طرح گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک نوٹ میں، سٹی ریسرچ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ کا نتیجہ اور حکومت کے حالیہ اقدامات قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناکا فی تھے، جو کہ قرض کی تنظیم نو کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
دوسری طرف ایک طویل عرصے تک، راجا پاکسے کی انتظامیہ اور سینٹرل بینک آف سری لنکا نے بڑھتے ہوئیے خطرات کے باوجود ماہرین اور اپوزیشن لیڈروں کی جانب سے آئی ایم ایف سے مدد لینے کی اپیلوں کی مزاحمت کی۔ لیکن فروری کے آخر میں یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد، حکومت نے بالآخر اپریل میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جواب میں آئی ایم ایف کے ترجمان نے کہا کہ آئی ایم ایف سری لنکا کے حکام کے ساتھ ممکنہ قرض کے پروگرام پر “آنے والے دنوں میں بات چیت شروع کرے گا۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے، سری لنکا نے اپنی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی کی، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوا، اور عوام کے درد میں اضافہ ہوا، جن میں سے بہت سے لوگ مشکلات اور لمبی قطاروں کا سامنا کر رہے ہیں۔
عبوری طور پر، راجا پاکسے نے چین اور بھارت سے بھی مدد مانگی ہے، خاص طور پر ایندھن کے حصول اور فراہمی کے لیے۔ فروری میں ہندوستان کے ساتھ پانچ سو ملین کی کریڈٹ لائن کے تحت ڈیزل کی کھیپ پر دستخط کیے گئے ہیں۔ سری لنکا اور ہندوستان نے خوراک اور ادویات سمیت ضروری اشیاء کی درآمد کے لیے 1 بلین ڈالر کی کریڈٹ لائن پر دستخط کیے ہیں، اور راجا پاکسے حکومت نے نئی دہلی سے کم از کم مزید 1 بلین ڈالر مانگے ہیں۔
دوسری طرف چین بھی سری لنکا کو 1.5 بلین ڈالر کی کریڈٹ سہولت اور 1 بلین ڈالر تک کا الگ قرض دینے پر غور کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے سری لنکا بحران سے نکل پائے، لیکن قرضے لیکر قرضوں کی ادائیگی بحران ختم نہیں کرتی اس کو محض تھوڑا آگے کر دیتی ہے۔ بحران کا مستقل حل لوٹ کھسوٹ پر مبنی نظام کی جگہ ایک منصفانہ سماجی اور معاشی نظام کا قیام ہے، جس کا مطالبہ لے کر سری لنکا کے لوگ آج سڑکوں پر ہیں۔ سری لنکا کی کہانی پاکستان کی کہانی سے بہت زیادہ ملتی جلتی ہے، اور اس میں ارباب اختیار کے لیے واضح سبق ہے۔
♣