بصیر نوید
شاری بلوچ عرف برمش اور ناظم جوکھیو سے ان کی عظیم قربانیوں سے قبل اگر میری ملاقات ہوجاتی تو میں کم از کم ان سے یہ تو ضرور پوچھ لیتا کہ کیا وطن کی محبت بچوں کے پیار سے بھی زیادہ گہری ہوتی ہے، بچوں کےنرم و گرم لمس کا احساس بھی اس وقت ماند پڑجاتا ہے جب وطن کی محبت پکارتی ہے؟۔ کیا ناظم جوکھیو نے ایک مرتبہ بھی نہیں سوچا ہوگا ہے کہ رات بھر کی انسانیت سوز ایذا رسانی برداشت کرنے سے بہتر ہے معافیاں مانگ کر بچوں کے گالوں پر پیار کرکے تمام زخموں کو مندمل کردیا جائے؟ یہ کون سا جذبہ تھا کہ اپنے وطن کےماحولیات کی حفاظت ، اپنے دیس میں آنے والے پرندوں کے تحفظ کی خاطر جان کی بازی لگا دی جائے۔
یہ وطن سے ہی محبت تھی کہ ناظم جوکھیو دنیا کے وہ پہلے شخص بن گئے جس نے ماحولیات کیلئے اپنی جان کی قربانی دی۔نیز سندھ کی تاریخی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے عربوں کے سامراجی عزائم کی بھرپور مزاحمت کی اور وطن سے محبت کی شاندار وراثت کو برقرار رکھا۔ اسی طرح شاری بلوچ نے بھی وطن کی آزادی پر قربان ہونے کیلئے اپنے جسم پر بارودی مواد لپیٹنے سے پہلے اپنی کوکھ کی جانب تو ضرور دیکھا ہی ہوگا جس نے دو خوبصورت بچوں کو جنم دیا تھا۔
مگر پھر اس نے اپنے بچوں جیسے لاکھوں بچوں کے بد حال مستقبل کو سوچتے ہوئے دھماکہ کردیا کہ ہر پل مرنے سے بہتر ہے ایک ہی مرتبہ اپنے عظیم وطن کی آزادی کیلئے قربان ہوا جائے۔ ایک نئی راہ بنائی جائے کہ وطن پر کئی دہائیوں سے حملہ آور وردی پوشوں کو بتا دیا جائے کہ اب عورتیں نہتی نہیں رہیں گی ۔سارے بچے اپنے بچے ہیں ایک کی جاں فروشی آنے والی نسلوں کو اپنے خون کا تحفہ دے سکتی ہیں تم کتنے ہی غائب کرو، ٹارچر کی گئیں لاشوں کو سڑکوں پر پھینک دو لیکن ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
شاری بلوچ اور ناظم جوکھیو کی سرفروشی سے قبل میں وطن اور ملک کو ایک ہی چیز جانتا تھا کیونکہ میں ان لاکھوں خاندانوں سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ہجرت کی جو کہ رہن سہن اور تہذیب کے لحاظ سے بالکل مختلف تھا چونکہ ہم واپس جا نہیں سکتے تھے اس لئے اردو بولنے والوں کی بیوروکریسی اور اشرافیہ نے سب سے طاقتور گروہ یعنی پنجاب کے ساتھ جو خود کو مارشل ریس کہتا تھا ایک غیر مرئی اتحاد بنالیا۔ یوں ملک میں موجود قوموں اور انکی تاریخ کی ہم نے نظریہ پاکستان کی آڑ میں مخالفت کا بیڑہ اٹھالیا۔
ایک ملک اور ایک زبان کے نعرے کو اسلام کے ایک رکن کا درجہ دیکر ملک میں صدیوں سے آباد قوموں و قومیتوں کی شناخت کو ملیامیٹ کرنے کی جستجو میں مصروف ہوگئے۔ ہم تو آج تک اپنی ہجرت اور اس کے سبب ہونے والے فسادات کا رونا رو کر ایک مراعت یافتہ گروہ بن گئے ہیں ہم ہجرت کرنے والےافراد پنجاب کے بالادست طبقات کی پیدل فوج بن گئے تھے اسی وجہ پاکستان میں آباد قوموں کے حقوق کو نہیں سمجھ سکے اور نہ ہی وطن سے محبت کو۔۔ہم تو انکار وطن تھے۔ لیکن شاری بلوچ اور ناظم جوکھیو کی سرفروشی نے ملک اور وطن کے درمیان کیا فرق ہے اس پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
ابھی تک مختلف ڈکشنریوں اور مختلف تشریحات میں ملک اور وطن کو ایک ہی درجہ دیا گیا۔ وطن کیلئے انگریزی میں مدرلینڈ اور ملک کیلئے کنٹری کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں الفاظ مختلف معنی یا تعریفیں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک فرد لاہور میں پیدا ہوا ہے تو وہ سرکاری طور پر پاکستانی کہلائے گا مگر جائے پیدائش لاہور ہونے سبب وہ پنجابی کہلائے گا یعنی پنجاب اسکا مدر لینڈ یا وطن ہوگا اور ملک پاکستان۔ یہاں واضح ہوتا ہے کہ اسکا وطن ہمیشہ پنجاب رہے گا چاہے اسکے ملک کی سرحدیں متعدد بار بدلتی رہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ملک بدلتے رہتے ہیں کیونکہ ملک کی سرحدیں کبھی ایک جیسی نہیں رہتی ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کے شہری کی مثال لیں تو وہ یا اسکے والدین پہلے ہندوستانی تھے، پھر پاکستان بننے کے بعد وہ پاکستانی کہلاتے رہے، بنگلہ دیش بننے کے بعد اب وہ بنگلہ دیشی کہلاتے ہیں۔ یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوم اور مادر وطن ایک ہی رہتے ہیں جبکہ ملک بدلتے رہتے ہیں۔ اس طرح وطن کی اہمیت ملک کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ محبت وطن سے ہوتی ہے کیونکہ ملک تو آنے جانے والی چیز ہے مگر وطن ایک ہی رہتا اسی لئے اسے ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اسی تناظر میں ناظم جوکھیو اور شاری بلوچ جیسے بے شمار جاں نثاران وطن کی قربانیوں کو دیکھنا چاہئے کہ وطن سے محبت میں حد درجے تک شدت ہوتی ہے جسے کسی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا۔ ملک سے محبت کا ذکر تو بہت کیا جاتا ہے لیکن وہ بھی مادر وطن کے حوالے سے ہوتی ہے جبکہ ملک کی حفاظت کیلئے تو تنخواہ دار وردی پوش ملازم رکھے جاتے ہیں ان کی محبت میں وہ حدت نہیں ہوتی جو وطن کیلئے ہوتی ہے کیونکہ وطن سے محبت خالص رضاکارانہ اور بےلوث ہوتی ہے۔ ملک سے تو نفرت بھی کی جاتی ہے اور اسکے خلاف بھی کام کیا جاتا ہے لیکن وطن سے کبھی بھی کسی قسم کی نفرت نہیں کی جاتی۔ وطن سے محبت کا نہ صرف کھلے عام اظہار کیا جاتا بلکہ وطن، اسکے باشندوں، اسکی زبان یا زبانوں، اسکی تاریخ، اسکی ثقافت اور اسکے رہن سہن پر کھلے عام فخر کیا جاتا ہے۔
شاری اور ناظم کی جانی قربانیوں کو وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو وطن، اسکی وحدت، اسکی تاریخ، اس میں بسنے والوں کی سرفروشی کی داستانوں کے اندر خود کو رکھ کر نہ دیکھا ہو۔ یہ صرف واقعات نہیں تاریخ کا رخ بدلنے کا آغاز ہیں۔
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے ناصحو پند گروں راہ گزر تو دیکھو
One Comment