انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کی رہائشی مانسیہ جب تین سال کی تھیں تو ان کی والدہ نے ان کو بھرت ناٹیم رقص سکھانے کے لیے داخل کرایا تھا۔ واضح رہے کہ بھرت ناٹیم صدیوں پرانا کلاسیکی ہندوستانی رقص ہے جس کی ابتدا مندروں سے ہوتی ہے۔
یہ انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملاپورم سے تعلق رکھنے والی ایک مسلم لڑکی کے لیے انتہائی غیر معمولی انتخاب تھا۔لیکن مانسیہ کی والدہ امینہ انھیں بھرت ناٹیم رقص سکھانے کے لیے پرعزم تھیں۔اس لیے ان کی دو بیٹیوں نے نہ صرف بھرت ناٹیم سیکھا بلکہ کتھا کلی اور موہنی اٹٹم جیسے دوسرے کلاسیکی رقص بھی سیکھے۔یہ آسان نہیں تھا کیونکہ برادری کے قدامت پسند مسلمانوں کا خیال تھا کہا کہ لڑکیوں کو ‘ہندو رقص‘ نہیں سیکھنا چاہیے۔ لیکن یہ خاندان رقص سے اپنے لگاؤ کی وجہ سے اکثر سرخیوں میں رہتا تھا۔
پچھلے ہفتے 24 سال بعد جب انھوں نے بھرت ناٹیم کی اپنی پازیب ایک بار پھر پہنی تو ایک بار پھر مانسیہ خبروں میں تھیں۔ اس سے قبل وہ پہلی بار اس وقت سرخیوں میں آئی تھیں جب 24 سال پہلے انھوں نے پہلی بار یہ پازیب پہنی تھی۔اس بار وہ ایک وائرل فیس بک پوسٹ کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں جسے انھوں نے اس وقت لکھا جب کیرالہ کے ایک مندر نے اپنے سالانہ تہوار کے موقعے پر انھیں رقص کرنے سے منع کر دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔
منتظمین نے پہلے ان کی درخواست قبول کر لی تھی، لیکن بعد میں مندر کے حکام، جنھوں نے پنڈال میں انھیں رقص کرنے سے روک دیا نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انھیں روایت کی پیروی کرنی ہے۔یہ واقعہ تیزی سے تقسیم کا شکار ہونے والے ملک میں ایک اور غلط مثال بن گیا ہے۔لیکن اس پابندی سے بے پرواہ مانسیہ نے اپنی پوسٹ میں لکھا: ‘میں اس سے بدتر امتیازی سلوک برداشت کرنے کے بعد یہاں تک پہنچی ہوں۔ یہ میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے‘۔
مانسیہ اب 27 سال کی ہیں اور بھرت ناٹیم میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ‘ہمیں کچھ مالی مشکلات تھیں، لیکن ہم واقعی خوش رہا کرتے تھے۔‘ڈانس یا رقص ان کی زندگی میں اس وقت داخل ہوا جب ان کی والدہ نے ٹی وی پر ایک پرفارمنس دیکھی اور ‘پر کشش رنگین ملبوسات‘ نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔اپنے شوہر وی پی علوی، جو اس وقت سعودی عرب میں کام کر رہے تھے، کی حمایت سے امینہ اپنی بیٹی مانسیہ اور ان کی بڑی بہن روبیہ کو ڈانس کی کلاسز میں لے جاتیں اور اس بات کو یقینی بناتیں کہ دونوں بہنیں ہر روز مشق کریں۔
ان کی زندگی سکول، رقص اور دینی امور کے درمیان تقسیم تھی۔ امینہ ایک دیندار مسلمان تھیں۔ مسٹر علوی کُٹی مانسیہ کے بڑے ہونے پر واپس کیرالہ چلے آئے۔ وہ زیادہ مذہبی نہیں تھے لیکن انھیں اپنی بیوی یا بچوں کے عقیدے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ہر روز سکول کے بعد اور چھٹی کے دن یہ خاندان بس سے سفر کر کے کیرالہ کے بہترین ڈانس ٹیچروں کے پاس جاتا جن سے مانسیہ اور روبیہ رقص کے چھ طریقے سیکھ رہی تھیں۔بعض اوقات یہ سفر سینکڑوں کلومیٹر پر محیط ہوتا اور ایک دن میں کئی اضلاع کا سفر ہوتا تھا۔
مانسیہ کہتی ہیں کہ ‘یہ مصروف دن ہوتا تھا، لیکن ہم معمول کے عادی تھے۔ مجھے یہ پسند تھا۔‘
ان بچوں نے مندروں اور یوتھ فیسٹیول میں پرفارم کرنا شروع کیا۔ کیرالہ میں رقص کی تعلیم کے طلبگاروں کے لیے باقاعدہ مقامات ہیں۔لیکن پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب ان کی مقامی مسجد کمیٹی نے اعتراض شروع کیا۔مانسیہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد کمیٹی کے ارکان اور مقامی مدرسہ کے اساتذہ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ مزید ڈانس نہیں کریں گی۔مانسیہ اتنی چھوٹی تھیں کہ وہ اس صورت حال کو سمجھنے سے قاصر تھیں لیکن روبیہ اکثر روتے ہوئے گھر آتی تھی۔امینہ اور مسٹر علوی کُٹی لڑکیوں کو یقین دلاتے کہ وہ رقص جاری رکھ سکتی ہیں۔مانسیہ کہتی ہیں: ‘مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے یہ کیسے کیا، لیکن انھوں نے ہم پر کبھی اپنی پریشانیوں کا اظہار نہیں کیا۔‘
مسٹر علوی کُٹی اپنی نوجوانی کے زمانے میں سٹریٹ ڈراموں میں اداکاری کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں طاقت ’یہ جان کر آئی کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہے تھے۔‘لیکن 2006 میں حالات اس وقت بدل گئے جب امینہ بیمار ہوئی۔ ان کو کینسر کی تشخیص ہوئی۔مسٹر علوی کُٹی کو علاج کے لیے رقم جمع کرنے میں جدوجہد کا سامنا تھا۔ مانسیہ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے مالی مدد کی پیشکش ختم ہو گئی کیونکہ مسجد کمیٹی جو اب بھی کلاسیکی رقص کرنے والی لڑکیوں سے ناراض تھی، اس نے ان کی درخواست کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔
مانسیہ یاد کرتی ہیں کہ ‘میں روز اپنی ماں کے ساتھ جاتی تھی جب وہ ممبران سے مدد کی درخواست کرتی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ اس صدمے نے انھیں مذہب سے اپنے تعلق پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔جب امینہ کا سنہ 2007 میں انتقال ہوا تو مانسیہ کہتی ہیں کہ انھیں مقامی قبرستان میں دفنانے کی جگہ دینے سے منع کر دیا گیا۔اگلے چند سال تنہائی والے اور مشکل تھے، بطور خاص اس وقت جب روبیہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پڑوسی ریاست تمل ناڈو چلی گئیں۔ لیکن مانسیہ کی رقص سے محبت اور ان کے والد کی حمایت نے ان کے رقص کو جاری رکھا۔
انڈیا میں مذہبی پیچیدگیوں کے درمیان اکثر دلچسپ تضادات پیدا ہوتے ہیں۔ سنہ 2021 کے پیو کے مطالعے سے پتا چلا ہے کہ تمام عقائد کے لوگوں کی اکثریت مذہبی رواداری اور مذہبی علیحدگی دونوں کی حمایت کرتی ہے۔ہم آہنگی روزمرہ کی زندگی اور ثقافت میں طویل عرصے سے پائی جاتی ہے، حالانکہ اس میں اکثر تلخی بھی نظر آتی ہے۔ انڈیا کے سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے کلاسیکی موسیقاروں میں کئی مسلمان بھی ہیں۔ ان کی موسیقی اکثر بہت زیادہ عقیدت سے بھرپور ہوتی ہے اور استاد بسم اللہ خان اور علاؤ الدین خان جیسے بہت سے موسیقار اپنے عقیدے پر عمل کرتے ہوئے ہندوؤں میں علم کی دیوی سرسوتی کے عقیدت مند بھی رہے ہیں۔
مانسیہ کا کہنا ہے کہ جب وہ اور ان کی بڑی بہن روبیہ بڑی ہو رہی تھیں تو لوگ انھیں پیار سے ‘وی پی بہنیں‘ کہتے تھے اور ان دونوں نے ‘ملاپورم ضلع کے تقریباً ہر مندر میں رقص کیا ہے۔‘ ان کا ہر جگہ محبت اور تحسین سے استقبال کیا جاتا تھا۔صرف ایک تلخ مثال انھیں یاد ہے جب ایک مندر میں کمیٹی کے ایک رکن نے ان پر اعتراض کیا تھا کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘لیکن ہماری کارکردگی کے بعد، وہ اتنا متاثر ہوئے کہ آ کر ہمیں گلے لگا لیا۔‘جب تھریسور ضلع کے کوڈلمانکیم مندر نے اپنے سالانہ تہوار کے لیے درخواستیں طلب کیں تو مانسیہ نے منتظمین سے رابطہ کیا جنھوں نے مانسیہ کو اپنی تفصیلات بھیجنے کو کہا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کس قسم کی تفصیلات دینی ہیں تو انھوں نے بتایا کہ جو کسی فنکار کے کوائف اور تجربے ہو سکتے ہیں۔ مانسیہ کہتی ہیں کہ اس میں مذہب کا ذکر نہیں تھا۔وہ اس تہوار کے لیے ہفتوں سے مشق کر رہی تھی جب ایک دوسرے منتظم نے فون کیا اور انھیں بتایا کہ وہ پرفارم نہیں کر سکتی کیونکہ مندر میں ‘غیر ہندو‘ کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
انڈیا میں زیادہ تر ہندو مندر تمام عقائد کے لوگوں کو داخل ہونے اور یہاں تک کہ عبادت کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں، جن میں کچھ مشہور مندر بھی شامل ہیں، جہاں اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ وہاں صرف ہندو ہی جا سکتے جبکہ مندر کے جن حصوں میں رسومات ہوتی ہیں وہاں بطور خاص ہندو ہونے کی قید ہے۔
پوسٹ کے وائرل ہونے کے بعد مندر کے حکام نے کہا کہ انھیں مانسیہ کی درخواست کو مسترد کرنا پڑا کیونکہ وہ ‘موجودہ روایات کی پیروی اور عمل کرنے کے پابند ہیں۔مانسیہ کو سیاست دانوں اور فنکاروں کی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان کی حمایت میں تین ہندو رقاصوں نے آئندہ 10 روزہ میلے سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ان کا خاندان بھی ان کے پیچھے مضبوطی سے کھڑا ہے بشمول ان کے ہندو سسرالی، جو باقاعدگی سے مندر جاتے ہیں۔
مسٹر علوی کُٹی اس تنازعے سے بے پرواہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اس کے مقابلے میں ‘معمولی بات‘ ہے جس سے وہ پہلے گزر چکے ہیں۔مانسیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے فیس بک پوسٹ ایک وجہ سے لکھی ہے کہ ‘اگر ایک بھی شخص اس کو پڑھتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ فن کا کوئی مذہب نہیں، تو مجھے خوشی ہوگی‘۔
بی بی سی اردو