خالد تھتھال
مغرب کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں بچا جہاں اسلامی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد نہ ہوں۔ ایک وقت میں یہ لوگ مقامی معاشروں کا حصہ تو نہیں بنے تھے لیکن یہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے، ان کی زندگی کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے کما کر اپنے وطن بھیجنا ہوتا تھا۔ ان تارکین وطن لوگوں کی اکثریت کنواری تھی۔
لیکن پھر ان کنواروں نے شادیاں کیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو مغربی ممالک میں درآمد کرنا شروع کیا۔ اور لگتا تھا کہ یہ لوگ ایک دو نسلوں کے بعد مقامی معاشروں کا ویسے ہی حصہ بن جائیں گے جیسے دوسرے عقائد کے لوگ مقامی معاشروں کا حصہ بنتے جا رہے تھے۔
مغربی ممالک میں دوسرے عقائد کے لوگوں نے اپنے رسم و رواج برقرار رکھے، ایک آدھ عبادت گاہ بھی بنا لی لیکن وہ کبھی اخبارات کی زینت نہ بن پائے۔ اگر صرف ناروے کو ذہن میں رکھوں تو پاکستانیوں کا اخبارات میں اکثر ذکر ہوتا تھا کہ اپنے بچوں کو پاکستان میں مقیم رشتہ داروں سے بیاہنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں، کسی بہانے ملک واپس لے جاتے ہیں اور وہاں زبردستی شادی کر دیتے ہیں۔ لڑائی مار کٹائی جو اکثر جنگ کی صورت میں نظر آتی تھی کہ ایک گروہ ڈنڈے یا کوئی ہتھیار لے کر دوسرا پر پل پڑا ہو۔ ٹیکس میں ہیرا پھیری کے لیے جعلی بچوں کا اندراج وغیری معمول کی باتیں تھیں۔ گو ان “چھوٹے” جرائم کی وجہ سے پاکستانیوں کو نفرت سے “پاکی “کہا جانے لگا تھا، لیکن لگتا تھا کہ یہ وقت گزر جائے گا۔
ان وقتوں میں چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بھی بنیں جیسے پاکستان ویلفیئر سوسائٹی، یعنی پاکستانیوں کی اندر کی سیاست میں چند پڑھے لکھے لوگ متحرک تھے۔ اور پھر ایک دن برطانیہ سے شور اٹھا کہ سلمان رشدی نے اسلام مخالف کتاب لکھی ہے، اس کتاب کے نیتجے میں جہاں برطانیہ میں مسلم کونسل آف بریٹین بنی، وہیں دوسرے ممالک میں مقامی سیاست کی باگ ڈور میں مساجد میں بیٹھے مولویوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔ ناروے میں چند مظاہرے بھی ہوئے جن کی قیادت جماعت اہل سنت کا امام کر رہا تھا، جسے انگریزی آتی تھی اور نہ نارویجن، اور مقامی سیاست میں سرگرم لوگ اُس کے ارشادات کا نارویجن ترجمہ کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے۔کتاب کو بین کرنا اور اس کا نارویجن ترجمہ نہ چھاپنا ان لوگوں کا بنیادی مطالبہ تھا۔
نارویجن جن کے لیے آزادی تحریر و تقریر کا جملہ ایک مقدس حیثیت رکھتا تھا، اُن کے لیے یہ مطالبہ بہت عجیب تھا۔ لیکن کتاب کا ترجمہ ہوا۔ ناشر ولیم نیگورپر قاتلانہ حملہ ہوا، مجرم نہیں پکڑے گئے لیکن شک تھا کہ اس میں کوئی ایرانی ملوث تھا۔
یہاں سے نہ صرف مسلمانوں کے عقائد کے متعلق دل چسبی بڑھی، قرآن کا نارویجن ترجمہ ہوا بلکہ مسلمانوں کے خلاف منفی جذبات بھی پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اور پھر کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہا جس کا تعلق مسلمانوں سے تھا، خواہ وہ امریکہ ٹوئن ٹاور تھا یا دیگر یورپی ممالک میں دہشت گردانہ کاروائیاں تھیں جن میں مسلمان ملوث تھے۔ ان واقعات کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھی بلکہ ہر ملک میں اسلام اور مسلمان مخالف زیر زمین تنظیمیں بھی بنیں۔
مغرب میں سابقہ بایاں بازو جو سوویٹ یونین کے ٹوٹنے کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک لاوارث بچے کی شکل اختیار کر گیا تھا، بلکہ داخلی سیاست میں بھی وہ فٹ نہیں ہو رہے تھے، اُن کو مسلمانوں کی شکل میں ایک نیا پرولتاریہ نصیب ہو گیا جس کی ہر الٹی سیدھی مانگ کی حمایت کرنا اُن کا نظریاتی فرض تھا۔ سیاسی درستگی کے نام پر ایسے ایسے مطالبوں کی حمایت ہوئی کہ لگ رہا تھا کہ ہم شائد ایک ڈیڑھ صدی پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا جیسی اصطلاح کی تخلیق بھی اسی رویے کی مرہون منت ہے۔
تازہ ترین خبر سنئے۔ یورپی یونین کے ایک کمیشن نے ڈنمارک سے مطالبہ کیا ہے
“حکام کو سیاسی جماعتوں سمیت نسل پرست تنظیموں کی فنڈنگ میں کمی اور انہیں تحلیل کرنے کے لیے قانونی ڈھانچہ بھی تیار کرنا چاہیے“۔
اس فقرے کا سلیس ترجمہ یہ ہے کہ اسلام پر کسی قسم کی تنقید نہیں ہو سکتی۔ اسلام اور مسلمان مترادفات ہیں۔ اگر کوئی اسلام کی تعلیمات پر تنقید کرے گا تو وہ دراصل نسل پرستی کا مرتکب ہو رہا ہو گا۔ اور ایسی تنقید کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہونی چاہیے بلکہ ایسی تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کے علاوہ ان کی سرکاری مدد ختم کی جانی چاہیے۔اگر کوئی اکا دکا شخص ایسا کرے تو وہ تو آسانی سے اسلامو فوب قرار دیا جا سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ اس کمیشن کا دھیان یہودیوں کی طرف نہیں گیا جو ڈنمارک کی سب سے کمزور مذہبی اور نسلی اقلیت ہے جنھیں مسلمانوں کی طرف سے سب سے زیادہ نفرت کا سامنا ہے اور انھیں مختلف متشدد کارائیوں بچانے کے لیے پولیس کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ وہ گروہ ہے جو اپنی شناخت چھپانے کے لیے اپنی مخصوص مذہبی نشانیاں اور پہناوا استعمال نہیں کرتا۔
اب ذرا ڈنمارک میں مقیم بیچارے مسلمانوں کی حالت زار دیکھیں۔ حزب التحریر کی ڈینش شاخ ایک ایسی تنظیم ہے جو دیگر چیزوں کے علاوہ یہودیوں کے قتل کا مطالبہ کرتے ہوئے پکڑی جا چکی ہے۔ڈنمارک میں ایک مسلمان تنظیم نے 2019 میں برطانیہ سےایک امام کو مدعو کیا جس نے نوجوانوں کو بتایا کہ جنگ میں پکڑی گئی غیر مسلم لڑکیوں کو جنسی غلام بنانا جائز ہے۔ان مساجد سے مسیحیت اور یہودیت کے خلاف پراپیگنڈا ہوتا ہے۔ ڈنمارک سے بہت سے نوجوان مرد اور لڑکیاں شام میں جہاد کی خاطر گئیں۔
لیکن یورپی یونین کے کمیشن کو مسلمانوں کی کسی قسم کے بیان یا کاروائی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اُن کو صرف مسلمان مظلوم لگتے ہیں، خواہ وہ مقامی معاشروں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کریں یا دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہوں۔ جس کا دفاع یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ ایسی کاروائی کرنے والا ایک شخص ہے جس کی وجہ سے پوری نسل کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اشخاص صرف مسلمانوں کے ہاں ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ تمام مغربی میں ممالک میں مسلمان ہی مقامی معاشرے میں جذب ہونے سے انکار کیوں کر رہے ہیں۔
اور پھر یہ نسل پرستی کا لفظ بھی عجیب ہے۔ ان جاہلوں کو کوئی کیوں نہیں بتاتا کہ مسلمانوں کو نسل کے کھاتے میں مت ڈالو، مسلمان ایک نسل نہیں بلکہ ایک نبی کی اُمّت ہیں، ایک عقیدے کے سوا ان میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ مسلمان ایشیا سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور افریقہ سے بھی۔ مسلمانوں میں بلغاریہ، بوزنیا اور کوسوو جیسے ممالک کے سفید مسلمان بھی ہیں اور چین اور جاپان کے بھی۔ مسلمان ہر رنگ اور ہر سائز میں دستیاب ہیں۔
♠