لیاقت علی
ایک وقت تھا جب لشکر طیبہ کے امیر حافظ سعید کا طوطی بولتا تھا۔ وہ ملک میں جہاں جاتے ان کو وی وی آئی پی سکیورٹی دی جاتی تھی۔ ہٹو بچو کی صدائیں گونجا کرتی تھیں ان کی شرافت اور نیک نامی کی گواہی خود جنرل پرویز مشرف دیا کرتے تھے۔ پھر ایک دن آیا کہ انھوں نے لشکر طیبہ سے اظہار لاتعلق کردیا۔ یہ کوئی رضاکارانہ فیصلہ نہیں تھا یہ اقوام متحدہ کا فیصلہ تھا جس نے لشکر طیبہ کو دہشت گرد تنظیم قراردے دیا تھا۔
حکومت نے حافظ صاحب قبلہ کو درخواست نما حکم دیا اور انھوں نے اچھے بچوں کی طرح یہ حکم مان لیا اور لشکر طیبہ کو نیا نام جماعت الدعوۃ دے کر اپنا جہادی کام جاری رکھا۔ وہ شہر شہر جاکر کشمیر جہاد کے لئے نوجوانوں کو بھرتی کرتے، جو نوجوان بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے حافظ صاحب ان کی موت کو شہادت قرار دے کر اس کا جشن مناتے اور اس کی غائبانہ نماز جنازہ دھوم دھام سے پڑھی جاتی جس میں ضلعی انتظامیہ پیش پیش ہوا کرتی تھی۔
حافظ صاحب کاروباری افراد کے مابین تنازعات کے فیصلے اپنی خود ساختہ شرعی عدالت میں کیا کرتے تھے متنازعہ جائیدادوں کو جماعت الدعوۃ کو عطیہ کرنے کا حکم دیتے اور اگر کوئی فریق اس حکم کو نہ مانتا تو حافظ صاحب کے مسلح دستے خود اس جائیداد پر قابض ہوجاتے۔ حافظ سعید کی زیر قیادت لہور اور اس کے گرد ونواح میں بہت سی جائیدادیں جماعت الدعوہ کے زیر قبضہ چلی گئیں جنھیں جماعت کو ملنے والے عطیات قرار دے دیا گیا تھا۔
پھر ایک وقت آیا کہ جماعت الدعوہ پر پابندی عائد ہوگئی اور حافظ صاحب نے ایک دفعہ پھر فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جماعت الدعوہ کا بوریا بستر لپیٹ کر ایک نئے نام فلاح انسانیت فاونڈیشن سے پرانا کام جاری رکھا۔ میڈیا حافظ صاحب کی شخصیت سازی میں دن رات مصروف تھا ۔ملک میں زلزلہ ہو یاکوئی دوسری آفت حافظ سعید کی تنظیم کی امدادی خدمات کی آڑ میں ان کی امیج بلڈنگ کی جاتی تھی۔نامور صحافی اور اب تجزیہ نگار سہیل وڑا ئچ اکثرو اوقات ایک دن جیو کے ساتھ حافظ صاحب کی شخصیت کا اجاگر کرنے کی کوششوں میں اپنا حص ڈالتے رہتے تھے ۔
پھر آیا فیٹف ، اس نےپاکستان کا نام ٹیرر فنانسنگ کی بنا پر گرے لسٹ میں ڈال دیا اور اس کی بدولت جہادی قیادت اور اس کی فنڈنگ پر پابندیوں کا حکم دیا گیا۔ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ اس کے جہادی اثاثے ان پابندیوں سے محفوظ رہیں لیکن یہ سب کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور جہادیوں کو خواہ دکھاوے کے لئے ہی سہی گرفتارکرنا پڑا اور انھیں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں سزائیں دی گئیں۔
حافظ صاحب گذشتہ کم و بیش تین سال سے مختلف مقدمات میں 33 سال کے سزایافتہ قیدی کے طور پرجیل میں ہیں گو کہ کچھ ناہنجار یہ دعوی کرتے ہیں کہ حافظ صاحب آج بھی مبینہ طور پر جیل میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں ہیں پتہ نہیں اس میں کتنا سچ اور کتنی مبالغہ آرائی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ جہادی قیادت جس قوت نے تعمیر کی تھی اس قوت نے اب اس سے اظہار لاتعلقی کرکے اسے نمایشی طور پر ہی سہی جیل میں ڈالا ہے اب اس کے باہر آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
لیاقت علی
ایک وقت تھا جب لشکر طیبہ کے امیر حافظ سعید کا طوطی بولتا تھا۔ وہ ملک میں جہاں جاتے ان کو وی وی آئی پی سکیورٹی دی جاتی تھی۔ ہٹو بچو کی صدائیں گونجا کرتی تھیں ان کی شرافت اور نیک نامی کی گواہی خود جنرل پرویز مشرف دیا کرتے تھے۔ پھر ایک دن آیا کہ انھوں نے لشکر طیبہ سے اظہار لاتعلق کردیا۔ یہ کوئی رضاکارانہ فیصلہ نہیں تھا یہ اقوام متحدہ کا فیصلہ تھا جس نے لشکر طیبہ کو دہشت گرد تنظیم قراردے دیا تھا۔
حکومت نے حافظ صاحب قبلہ کو درخواست نما حکم دیا اور انھوں نے اچھے بچوں کی طرح یہ حکم مان لیا اور لشکر طیبہ کو نیا نام جماعت الدعوۃ دے کر اپنا جہادی کام جاری رکھا۔ وہ شہر شہر جاکر کشمیر جہاد کے لئے نوجوانوں کو بھرتی کرتے، جو نوجوان بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاتے حافظ صاحب ان کی موت کو شہادت قرار دے کر اس کا جشن مناتے اور اس کی غائبانہ نماز جنازہ دھوم دھام سے پڑھی جاتی جس میں ضلعی انتظامیہ پیش پیش ہوا کرتی تھی۔
حافظ صاحب کاروباری افراد کے مابین تنازعات کے فیصلے اپنی خود ساختہ شرعی عدالت میں کیا کرتے تھے متنازعہ جائیدادوں کو جماعت الدعوۃ کو عطیہ کرنے کا حکم دیتے اور اگر کوئی فریق اس حکم کو نہ مانتا تو حافظ صاحب کے مسلح دستے خود اس جائیداد پر قابض ہوجاتے۔ حافظ سعید کی زیر قیادت لہور اور اس کے گرد ونواح میں بہت سی جائیدادیں جماعت الدعوہ کے زیر قبضہ چلی گئیں جنھیں جماعت کو ملنے والے عطیات قرار دے دیا گیا تھا۔
پھر ایک وقت آیا کہ جماعت الدعوہ پر پابندی عائد ہوگئی اور حافظ صاحب نے ایک دفعہ پھر فرماں برداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جماعت الدعوہ کا بوریا بستر لپیٹ کر ایک نئے نام فلاح انسانیت فاونڈیشن سے پرانا کام جاری رکھا۔ میڈیا حافظ صاحب کی شخصیت سازی میں دن رات مصروف تھا ۔ملک میں زلزلہ ہو یاکوئی دوسری آفت حافظ سعید کی تنظیم کی امدادی خدمات کی آڑ میں ان کی امیج بلڈنگ کی جاتی تھی۔نامور صحافی اور اب تجزیہ نگار سہیل وڑا ئچ اکثرو اوقات ایک دن جیو کے ساتھ حافظ صاحب کی شخصیت کا اجاگر کرنے کی کوششوں میں اپنا حص ڈالتے رہتے تھے ۔
پھر آیا فیٹف ، اس نےپاکستان کا نام ٹیرر فنانسنگ کی بنا پر گرے لسٹ میں ڈال دیا اور اس کی بدولت جہادی قیادت اور اس کی فنڈنگ پر پابندیوں کا حکم دیا گیا۔ پاکستان نے پوری کوشش کی کہ اس کے جہادی اثاثے ان پابندیوں سے محفوظ رہیں لیکن یہ سب کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور جہادیوں کو خواہ دکھاوے کے لئے ہی سہی گرفتارکرنا پڑا اور انھیں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں سزائیں دی گئیں۔
حافظ صاحب گذشتہ کم و بیش تین سال سے مختلف مقدمات میں 33 سال کے سزایافتہ قیدی کے طور پرجیل میں ہیں گو کہ کچھ ناہنجار یہ دعوی کرتے ہیں کہ حافظ صاحب آج بھی مبینہ طور پر جیل میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں ہیں پتہ نہیں اس میں کتنا سچ اور کتنی مبالغہ آرائی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ جہادی قیادت جس قوت نے تعمیر کی تھی اس قوت نے اب اس سے اظہار لاتعلقی کرکے اسے نمایشی طور پر ہی سہی جیل میں ڈالا ہے اب اس کے باہر آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
♣