آکار پٹیل
انگریزی سے ترجمہ: خالد محمود
کیا ہندوستان ایک پولیس اسٹیٹ ہے؟ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ہاں اور نہیں۔ جولائی میں سنائے گئے دو مختلف فیصلوں میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے زندگی اور آزادی پر ریاست کی بالادستی پر مختلف آوازوں میں بات کی ہے۔
لغت میں پولیس اسٹیٹ کی تعریف ایک سیاسی اکائی کے طور پر کی گئی ہے جس کی خصوصیت معاشی اور سماجی زندگی پر عدالتی اور سماجی زندگی پر حکومت کے انتظامی اور عدالتی اعضاء کے باقاعدہ کنٹرول(قانونی طریقہ کارجس سے عوام واقف ہیں) کی جگہ پولیس اور خاص طور پر خفیہ پولیس اور ایجنسیوں کے ذریعے طاقت کے صوابدیدی استعمال پر مبنی ہے۔
اس کا مطلب ہے ایک ایسی قوم ہے جہاں حکومتی ادارے سول سوسائٹی اور آزادی کو انتہائی حد تک کنٹرول کرتے ہیں۔ اسے ایسے بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں قانون اور انتظامیہ کے ذریعے سیاسی طاقت کے استعمال میں بہت کم یا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دنیا میں پولیس اسٹیٹس کی بہت سی مثالیں ہیں مگر وہ جمہوری نہیں ہوتی ہیں۔ آج کا چین،کاسترو کے تحت کیوبا، کِم خاندان کے تحت شمالی کوریا،سعودی عرب اور میانمار پولیس ریاستیں ہیں۔
کیا بھارت ایک پولیس اسٹیٹ ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے ایک اور سوال کا پوچھنا ضروری ہے۔ کیا ایک جمہوری ریاست پولیس اسٹیٹ ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے اور ہمارے دور میں روس بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ روس ایک جمہوری ریاست نہیں ہے اور اس کا انتخابی نظام ناقص ہے۔ مگر یہی دلیل ہماری ریاست کے علاوہ دیگر کئی ریاستوں کے متعلق بھی دی جا سکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا محرک افراد کے لئے زیادہ آزادی کی طرف بڑھنا ہے یا زیادہ پابندیوں اور پولیس اسٹیٹ بننے کی طرف گامزن رہنا ہے۔
گیارہ 11 جولائی کو بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ جمہوریت کبھی پولیس اسٹیٹ نہیں ہو سکتی۔ یہ بیان افراد کو ضمانت دینے پر دیا گیا تھا اور عدالت نے نوٹ کیا کہ بھارت کی جیلوں میں قیدیوں کی اکثریت زیرِ سماعت مقدمات پر مشتمل ہے۔جس کا مطلب ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن پر الزام لگایا تھا مگر سزا ابھی نہیں ہوئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ تفتیشی ایجنسی کی طرف سے مقدمات شروع ہونے سے پہلے لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالنا یقینی طور پر نوآبادیاتی ہندوستان کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ گرفتاری ایک سخت اقدام ہے جس سے شخصی آزادی سلب ہو جاتی ہے اور اس کا استعمال کم سے کم ہونا چاہئیے۔
ایک جمہوریت میں پولیس اسٹیٹ کا تاثر کبھی بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ دونوں تصوراتی طور پر ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ عدالت جس چیز کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت کے باوجود پولیس اسٹیٹ کے طور پر برتاؤ کر رہے ہیں۔ اس کے کچھ دن بعد سپریم کورٹ نے ایک اور بنچ میں فیصلہ سنایا ہے جس میں انفورسمنٹ ڈائیریکٹوریٹ کے لوگوں کو حراست میں لینے اور جائیدادوں کو ضبط کرنے کے لامحدود اختیارات کو درست تسلیم کیا ہے۔
اس فیصلے نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کو ختم کر دیا ہے جو انفرادی آزادیوں کے حق میں تھا۔ اب ایک بار پھر منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والے افراد کو جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اور ایک بار جیل جانے کے بعد،ثبوت کے بوجھ کے الٹ جانے سے، سزا کے بغیر باہر آنا ناممکن ہو جائے گا۔ یہ اُس شرط سے ملتا جلتا ہے جس کی سپریم کورٹ نے غیر قانونی سرگرمیوں کے روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے ) میں توثیق کی ہے جہاں ایک بار شک کی بنیاد پر جیل جانے والے افراد اپنی رہائی کو بھول سکتے ہیں۔
میں اکثردوسرے قوانین کے بارے میں لکھ چکا ہوں جس میں ثبوت کا بوجھ ملزم پر ڈال دیتے ہیں۔ گائے کا گوشت رکھنا،ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان بین المذاہب شادیوں پر پابندی اور نشہ آور چیزیں وغیرہ رکھنا میں بھی ایسی ہی شرائط ہیں۔ ان تمام قوانین میں طاقت کا توازن ریاست کے حق میں ہے۔ فرد جو کہ حکومت سے بہت زیادہ کمزور ہے اسے حکومت کے برابر یا طاقتور سمجھ لیا جاتا ہے یا تصور کر لیا جاتا ہے۔ بلا شبہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مخالفین اور اختلاف کرنے والے کارکنوں کو سزا سے پہلے جیلوں میں ڈالنا غلط ہے۔
ہندوستان کبھی بھی ایک خاص راستے پر چلنے پر مطمئن نہیں ہوا ہے۔ اور ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ پولیس اسٹیٹ اور پولیس گردی سے رسم و راہ رکھی ہے، جب کہ ہمارا آئین دوسری طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہم نے ایسے قوانین کو اختیار کیا ہے جنہوں نے شخصی آزادی کو محدود کیا ہے اور ریاست کو انفرادی آزادی پر مکمل کنٹرول دیا ہے۔ ہم اپنے اندر کے خوف اور ریاست کے کنٹرول کی خواہش کی وجہ سے انفرادی آزادی پر قبضہ کرتے ہیں۔ ہم نے اسے (ٹی اے ڈی اے ) اور ( پی او ٹی اے) کی طرح ہونے دیا کیونکہ ہمیں احساس ہے کہ ریاست اس مطلق اختیار کا غلط استعمال کرتی ہے۔
بحیثیت قوم، ظالمانہ قوانین کے غلط استعمال پر،ہماری حکومت اور اس کے اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دینے میں نااہلی کی وجہ سے یہی لوگ واپس آتے رہتے ہیں۔ جب ہم جانتے ہیں کہ اِنفورسمنٹ ڈائیریکٹوریٹ کے قائم کردہ مقدمات میں سزا کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کے مخالفین کے خلاف کا ہمیشہ غلط استعمال کیا گیا ہے۔2014 کی نسبت اِنفورسمنٹ ڈائیریکٹوریٹ کے چھاپوں کی تعداد آج پچیس فیصد بڑھ گئی ہے۔ تو پھر ہم اس ادارے کو مزید اختیارات کس لئے دے رہے ہیں؟
ایک جواب یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ریاست کے پاس لامحدود اختیارات کے علاوہ باقی سب کچھ ہو۔یہی وہ رویہ ہے جو عدلیہ میں ان افراد میں ظاہر ہوتا ہے جو حکومت کے حقوق کو ہمیشہ عوام کے حقوق سے بالا تررکھنے کی استعداد رکھتے ہیں اس کے لئے تیار رہتے ہیں۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح ہم نے دوسرے ظالمانہ قوانین کو ختم کر دیا ہے جو 2014 سے پہلے بنے تھے، ایک دن یہ بھی ختم ہو جائیں گے۔
لبرل جمہوریتیں جیسا کہ ہمارا آئین ہمیں بتاتا ہے، فطری طور پر فرد کے لئے زیادہ آزادی اور ریاست کی طرف سے افراد کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت پر زیادہ پابندیوں کی طرف بڑھتی ہیں۔ ہمارا چیلنج یہ ہے کہ اس مایوس کن دور میں بھی،جس سے ہم گزر رہے ہیں ہمارے حقوق اور آزدیوں پر تجاوزات کو دور ہٹائیں۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے جہاں نہ تو ہم پولیس اسٹیٹ بنیں اور نہ ہی کبھی بننے کی طرف مائل ہوں۔
بشکریہ: نیشنل ھیرالڈ