گزشتہ کالم میں میں نے کیوبا کے عجائب گھروں کا ذکر کیا تھا۔ ان عجائب گھروں کی وجہ سے کیوبا کو آرٹ کاپاور ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔ کیوبا کے سفر کے دوران میری ٹورسٹ گائیڈ ایلیسیا نے جب ہوانا شہر کے نقشے پرمجھے عجائب گھر دکھائے تو مجھے ایسا لگا کہ اگر ہم ان میں سےصرف آدھے عجائب گھر ہی دیکھنا چاہئیں، تو اس کے لیے کئی دن بلکہ ہفتے درکار ہوں گے۔ ہوانا شہر میں آنے والا کوئی نووارد یہ نوٹ کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں بے شک دکانوں یا شاپنگ پلازوں کی کمی ہو ، یا ان کے اندر سامان کی شدید کمی ہو، لیکن کیوبا کے دارالحکومت میں یقینی طور پر ثقافت کی کمی نہیں ہے۔
ہوانا میں پچاس سے زیادہ عجائب گھر ہیں۔ان میں سے بہت سے عجائب گھروں میں داخلہ مفت ہے ۔ آپ بغیر ٹکٹ کے ان عجائب گھروں کی سیر کر سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر میں ہوانا کو آرٹ وکلچر کا دارالحکومت کہوں تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ ان پچاس عجائب گھروں میں ہر طرح کا ذوق رکھنے والے سیاحوں کی دلچسبی کا سامان ہے۔ اگر کسی سیاح کو آرٹ پسند نہیں ہے، تووہ رم میوزیم میں ہوانا کلب سے لطف اٹھا سکتا ہے۔ اگر کسی سیاح کو تاریخ سے دلچسبی نہیں ہے، تو یہاں پر قدیم حجاموں یعنی باربرز کےمیوزیم کا دورہ کر سکتا ہے۔
عجائب گھروں کی اس فہرست میں سے ہم پہلے ہی ” انقلاب کا عجائب گھر” دیکھ چکے تھے۔ آج ایلیسیا کا خیال تھا کہ ہم نیشنل میوزیم آف آرٹس میں جائیں، جو کیوبن آرٹ کا سب سے بہترین عجائب گھر تصور کیا جاتا ہے۔یہ عجائب گھردو کیمپس میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میوزیم کا سب سے بہترین حصہ کیوبا کی آرٹ کا مجموعہ ہے، جسے انقلاب کے عجائب گھر کے ساتھ والی ایک صاف ستھری جدید عمارت میں رکھا گیا ہے۔ میوزم میں آرٹ کا بے شمار کام نمائش کے لیے رکھا گیا۔ آرٹسٹوں میں کیوبا کے علاوہ لاطینی امریکہ اور دیگر ممالک کا کچھ کام بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں کیوبن آرٹسٹ وکٹر مینول کی لاطینی مونا لیزا کی پینٹنگ بھی ہے۔ اس کے علاوہ ٹرسر منڈو کا کام بھی نمائش کے لیے رکھا گیا ہے، جس کو کیوبا کا سب سے مقبول آرٹسٹ سمجھا جاتا ہے۔
کیوبا کی جدید تاریخ میں دلچسبی رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ سب سے بہترین عجائب گھر ہے۔ہماری اگلی منزل میوزیم ڈی لا سیوڈاڈ تھا۔ ہوانا شہر کو جاننے کے لیے یہ ایک اہم میوزیم ہے۔ اس میں سولہویں صدی کے شروع سے لیکر بیسویں صدی کی ابتدا تک کی ہوانا شہر کی تاریخ نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ شہر کے تاریخ دان لیل کا مجسمہ بھی نصب ہے ۔ میوزیم جس محل میں واقع ہے یہ1770 کی دہائی میں تعمیر ہوا تھا ۔ یہ محل کبھی کیوبا کے ہسپانوی حکمرانوں کا گھر تھا، اور بعد میں اس نے مختصر طور پر امریکی فوجی گورنروں اور کیوبا کے پہلے تین صدور کے لیے بھی رہائش کا کام دیا۔
اگر آپ کو یہ جاننے میں دلچسپی ہےکہ فیڈل کاسترو کےسوشلسٹ انقلاب نے کیوبا سے پہلے یہاں کی اشرافیہ اور ہوانا کے امیر ترین لوگ کیسے رہتے تھے،تو اس کے لیے ڈیکوریٹیو آرٹس کا عجائب گھر دیکھنا ضروری ہے۔یہاں آپ وہ شاندار رہائش گاہ دیکھ سکتے ہیں ، جوکیوبا کے بڑے تاجر ہوزے گومیز مینا کے لیے 1924 میں ایک عظیم یورپی حویلی کے انداز میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس عمارت کے اندر بادشا ہ لیوس پنجم کا فرنیچر، چینی کے برتن اور مہنگے شیشے کے سامان کی کثرت ہے۔ یہ سامان اس وقت کی اشرافیہ کے طرز زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں نپولین بوناپارٹ کے بارے میں جاننے کے لیے کیوبا کوئی مناسب جگہ نہیں ہے، لیکن یہاں ایک شاندار میوزیم ” میوزیو نیپولیونیکو” بھی ہے۔یہ میوزیم دنیا میں نپولین سے متعلقہ نمائیش کے لیے رکھے گئےنمونوں کے بہترین مجموعوں میں سے ایک ہے۔ اس میوزیم میں فرانس کے اس سابق شہنشاہ سے وابستہ 7000 سے زیادہ اشیاء کو سٹی ہسٹورین کے دفتر نے ماہرانہ طریقے سے نمائش کے لیے رکھا ہے ۔ یہ اشیا 1920 کی دہائی میں تعمیر کی گئی ایک شاندار حویلی میں رکھی گئی ہیں۔ میوزیم میں تلواریں، خطوط، مجسمے، پینٹنگزاور فرنیچر ہے۔
میں نے ایلیسیا سے پوچھا کہ یہ میوزیم کیوبا میں کیوں اور کیسے بن گیا؟ ایلیسیا نے بتایا کہ یہ سامان 1940 اور 50 کی دہائی میں کیوبا–وینزویلا کے چینی کے تاجر جولیو لوبو نے جمع کیا تھا، جس کا نپولین کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ رہا۔ جب لوبو نے انقلاب کے بعد 1960 میں کیوبا چھوڑا تو ریاست کی طرف سے اس کے جمع شدہ نمونے ضبط کر لیے گئے، اور ان نمونوں کی نمائش کے لیے اگلے سال میوزیم کھول دیا گیا۔ کیوبا میں “میوزیم ڈی لا فارماسیا” یعنی میوزیم آف فارمیسی بھی موجود ہے۔ یہ میوزیم عجائب گھر کے ساتھ ساتھ کیوبا کے لوگوں کے لیے ایک دواخانہ کے طور پر بھی کام کرتا ہے ۔ یہ دواخانہ پہلی بار1853میں کھولا گیا تھا۔سوشلسٹ انقلاب کے بعد کی دہائی میں قومیانے کے بعد، سٹی ہسٹورین نے اس کو شاندار طریقے سے بحال کرنے کے بعد دوبارہ کھول دیا ۔
پیچیدہ طور پر کھدی ہوئی لکڑی کی شیلفنگ، رنگین داغ دار شیشے اور پینٹ شدہ سرامک برتنوں کی قطاریں فارمیسی کے 19ویں صدی کے اواخر کے کلچر کے عکاس ہیں۔دوا خانے کے دو ملحقہ کمروں میں پرانے خاکے اور دلکش طبی نقوش دکھائے گئے ہیں، جو بنیادی طور پر ہسپانوی سرخیوں کے ساتھ اسٹور کی تاریخ کی وضاحت کرتے ہیں۔ اگلے روز ہماری منزل چی گویرا میوزیم تھا۔ یہ میوزم ہوانا کی بندرگاہ کے مشرقی جانب ایک قلعہ میں واقع ہے ۔ اس میوزیم میں چی گویرا کی زندگی اور زمانے کے نمونے اور تصاویر موجود ہیں۔ گویرا نے 1959 میں انقلاب کی فتح کے بعد پانچ مہینوں کے لیے قلعہ کو اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا۔ان کے سابقہ دفاتر کی جگہ پر ارجنٹینا میں بطور ڈاکٹر اور کیوبا کے مشرقی پہاڑوں میں ایک باغی کمانڈر کے طور پر ان کی زندگی کی کچھ جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔میوزیم دیکھنے کے لیے پورے قلعے کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، اور سیاح کو سووینئر شاپس، کیفے، شاندار نظارے اور رات کے وقت توپ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
ہوانا شہر میں مشہور امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگوے کے گھر ہے، جواب ایک میوزیم ہے۔ دنیا بھر میں ہیمنگ وے کو کئی طریقوں سے خراج عقیدت پیش کیا گیا، لیکن ہوانا کے مضافاتی علاقے میں خوبصورت میوزیو ہیمنگ وے، بلاشبہ، سب سے زیادہ مستند ہے۔ یہ گھر بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ یہ 1950 کی دہائی میں تھا۔ گھر کے اندرونی حصے کی حفاظت کے لیے، زائرین کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بجائے آپ کو کھلے دروازوں اور کھڑکیوں سے اندر جھانک کر دیکھنا پڑتا ہے۔ واحد علاقہ جس میں آپ داخل ہو سکتے ہیں وہ مرکزی گھر کے ساتھ ایک تین منزلہ ٹاور ہے، جہاں ہیمنگوےاکثر کھڑے ہو کر ٹائپ رائٹر کے ذریعےلکھتے تھے۔
ہمنگ وے کا میوزیم دیکھنے کے بعد میں نے ایلیسیا کو بتایا کہ اگرچہ ابھی بہت سارے عجائب گھر دیکھنے باقی ہیں، لیکن میرے خیال میں ہمیں اسی پر بس کر لینا چاہیے۔ اتنے عجائب گھر دیکھ لیے کہ اب مجھے خواب میں پتلے اور مجسمے نظر لگے ہیں۔ عجائب گھر کسی ملک کی ثقافت اور تاریخ کا عکس ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کتنے عجائب گھر ہیں ؟ اس سوال کے جواب سے پتہ چل سکتا ہے کہ یہاں کی حکمران اشرافیہ اپنی تاریخ و ثقافت کے بارے میں کتنی حساس ہے۔ اور یہاں کی تاریخ و ثقافت کی بقا کے لیے کیاآج تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ اور ان حالات میں یہاں کی تاریخ و ثقافت کی بقا کیسے ممکن ہے۔
♠