بات کرتے ہیں تو اُوقات بتا دیتے ہیں
لوگ کردار سے اب ذات بتا دیتے ہیں
آئینہ سیدہ
عمران خان نیازی ۔۔۔ اِن صاحب پر پچھلے دس پندرہ سال میں بہت کچھ کہا گیا ، لکھا گیا ،سنا گیا مگر اِن کے وزیراعظم بننے سے لیکر اِن کی آئینی معزولی کے بعد آج تک جو کہرام برپا ہے اُسکی نظیر پاکستان کی سیاسی تاریخ اورحصولِ اقتدار کی جنگ میں کہیں نہیں ملتی۔
ذاتی طورپرمجھے کرکٹرعمران خان کچھ نہ کچھ پسند تھے بس اتنے ہی جتنا کوئی بچہ کسی بھی اسٹار کو پسند کر سکتا ہے ، کینسر ہسپتال کے لیے اُنکی کاوشوں نے پسندیدگی کو بڑھایا ، اکثر پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی اس مفت علاج مہیا کرنے والے ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کی تھی۔ یہ سب تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاستدان عمران خان نے جب سیاست کے میدان میں اسٹار بننے کی کوشش شروع کی تو ہمیں ان سے اندھی نفرت نہیں تھی اور نہ کوئی سیاسی ناپسندیدگی تھی۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پرنظر ڈالیں تو ہمیں عوامی منتخب رہنماؤں کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے الزمات ، بہتان طرازی ، میڈیا ٹرائل کی بہتات ملے گی ۔ اخبارات اور ریاستی ٹی وی ، ریڈیو کے ذریعے عوام کے ہردلعزیز لیڈروں پر کرپشن کے الزامات کی روایت کافی پرانی ہے۔ اسی لیے جب سیاست میں نووارد عمران خان کی کردار کشی شرو ع ہوئی تو کم از کم میں نے یہی سمجھا کہ جیسے بھٹو شہید پر ” اِدھرہم اُدھرتم “کا جھوٹا الزام لگا کر عوام کے ذہن مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی یا جیسے سائیں جی ایم سید ، باچا خان ، سردار بگٹی شہید ، شیخ مجیب الرحمان کو جھوٹ ، الزامات اور سازشوں کے ذریعے غیر ملکی ایجنٹ ، غدار ، ملک دشمن مشہور کروایا گیا ، جس طرح محترمہ شہید اور انکی والدہ کی جھوٹی تصاویر گرا کر پنجاب کے عوام کی نظروں میں ُان کا احترام کم کرنے کا گھٹیا کام کیا گیا یا پھرمحترم آصف زرداری کو محترمہ سے شادی نبھانے پر پاکستانی پریس ہی نہیں غیر ملکی نشریاتی اداروں سے بھی کبھی مسٹر ٹین پرسنٹ تو کبھی پلے بوائے مشہور کروایا گیا،تو ہوسکتا ہے عمران خان پر بھی یہی گُر استعمال کیے جارہے ہوں ۔
سو بہت عرصے تک ہم نے اس ” حُسن ظن” سے کام لیا مگر پھر 2014 کا دھرنا آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ایک سو چھبیس دن کسی بھی وطن پرست ، عوام دوست اور سیاسی بالغ کے لیے کافی تھےتاکہ اچھی طرح سمجھ جائےور جان جائے کہ عمران خان صاحب کیا چیز ہیں ؟؟
اس بار کہانی “الزمات ، بہتان ، جھوٹ اور میڈیا ٹرائل ” کی نہیں تھی کیونکہ میڈیا نے تو ” لیڈر ” صاحب کا ایک ایک حرف کسی سنسر کے بغیر ہم تک لائیو پہنچایا ۔ ہر تقریر ، سرکار کو دی گئی ہر دھمکی ، حکومت تو حکومت عمران خان صاحب نے تو اپنے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھی اپوزیشن تک کو گالیاں دیں اور یہ سب لائیو دیکھا گیا ۔ دھرنے کے دوران وہ مسلسل اپنے کارکنوں اور سپورٹرز غیر قانونی حرکتیں اپنانے کے لیے اکساتے رہے ، ملک و قوم کی تباہی اور بربادی کے ایسے ایسے نسخے اسٹیج سے برآمد ہوتے رہے جو پاکستان کے غدار اور ایجنٹ کہلانے والے لیڈروں کے منہ سے ہم نے کبھی نہ سنے تھے۔
اب سوال یہ تھا کہ آنکھوں دیکھی ” مکھی ” کون کھائے؟؟؟ جس طرح “سنی سنائی ” پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آنا جہالت ہے ویسے ہی اپنی آنکھوں سے ملکی اداروں اور منتخب افراد پررکیک حملے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر، ا پنے کانوں سے سن کربھی اگرکوئی موصوف کو ” لیڈر ، رہنما ، یا قوم کا سربراہ ” سمجھتا ہے تو اُسکی عقل پر آپ ماتم ہی کر سکتے ہیں۔
اور پھر ہم نے ماتم کیا بھی لیکن افراد کی عقل و فہم پر نہیں بلکہ “قومی سلامتی کے اداروں ” پر جن کو ہوش میں رہنے کی ہی تنخواہ دی جاتی ہے مگر انہوں نے ایک بے راہرو ، انا پرست ، جذباتی اور طاقت کے حصول میں بولاۓ ہوۓ آدمی کو ہیرو بنانے کا فریضہ انجام دیا۔
یوں تو 126 دن کے دھرنے اور پھر سلیکٹڈ کے طور پر جناب عمران خان نے مستقل ایسی باتیں کیں جنکو آپ بونگیاں اور نا عا قبت اندیشیاں کہہ سکتے ہیں مگر انکے ذہن کی عکاسی کرتے منہ سے نکلنے والے کچھ جملے ایسے ہیں جو اُنکو لیڈر یا رہنما یا مملکت کے امورچلانے والے ذمہ دارانہ عہدوں کے لیے مکمل طور پر نااہل ثابت کرتے ہیں۔
اِن بیانات میں سے تین قارئین کے سامنے رکھوں گی اُمید ہے کُھلے دل و دماغ سے غوروفکر کی عادت اپناتے ہوئے اِن جملوں پرغور کریں گے جو یقیناً صرف جملے نہیں تھے کیوں کہ پونےچار سال کی تمام ترحکومتی پالیسیاں ان جملوں کے گرد گھوم رہی ہیں جوعمران خان صاحب کے کردار کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔
تیئس اگست سن2014 کو بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو“حکم” دیتے ہیں کہ اپنے پاکستان میں رہنے والے خاندان کو بینک کے ذریعے رقوم مت بھیجیں بلکہ حوالہ ہنڈی ( ناجائز ذرا ئع) سے رقم کی ترسیل کریں اسی سال سترہ اگست کواپنے سپورٹرز اورکارکنوں کو بل نہ دینے بلکہ جلا دینےکی ہدایت بھی کرتے ہیں۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا بہت سے سیاسی رہنماؤں کو تحریکیں چلاتےاورفوج کی آمرانہ حکومتوں کو للکارتے دیکھا پیپلزپارٹی اپنی شہادتوں، قید وبند، جلاوطنیوں کے باوجود اور نواز لیگ حالیہ ناانصافیوں سمیت بھی اس قسم کے بیانات دینے سے ہمیشہ گریز کرتی ہیں، مگر ان دونوں وفاقی پارٹیوں سے بڑھ کر وہ قوم پرست جماعتیں جواسلام آباد کی پاور پالیٹکس میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں مگر انکی قیادتیں بھی عوام کو وہ شاخ کاٹنے کا درس کبھی نہیں دیتیں، جس پر مستقبل میں اُ نکا آشیانہ بن سکتا ہے۔
اس قسم کا بیان یا تو کوئی مخبوط الحواس سیاستدان دے سکتا ہے یا پھر ملک دشمن کیونکہ ناجائز طریقوں کی طرف عوام کو اُکسانا ظاہر کرتا ہے کہ آپ اپنی ہوس اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ نہ جانے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پی ٹی آئی اوراُس کے بانی کو اس قسم کے بیانات کے بعد بھی سن2018میں ووٹ دیے ، اور چاہا کہ ایسا طاقت واقتدار کی بھوک میں اندھا ہوا شخص اتنی بڑی ذمہ داری پر قابض ہوجائے، سوہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی حالیہ معاشرتی اورمعاشی تباہی میں خودغرض اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ ایسے کم عقل لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔
دوسرا بیان جو ایک نہایت ہی دلخراش واقعہ کے بعد عمران خان صاحب نے دیا اس کی اہمیت اور سنجیدگی اس لیے بھی بڑھ گئی کہ موصوف اب اپوزیشن کی سیٹوں سے اٹھ کر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوچکے تھے سیلیکٹڈ تھے یا الیکٹڈ مگر بیان نہایت ہی بے حسی اور بزدلی پر مبنی تھا کسی بھی غیر جانبدار اور ہوش و حواس رکھنے والے شخص سے پوچھا جاتا کہ ملک کے ایک کونے میں گیارہ محنت کشوں کو انکے عقیدے کی وجہ سے ایک دہشتگرد گروہ نے بہیمانہ انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے لواحقین لاشیں دفن کرنے سے انکاری ہیں کہ ایسے واقعات انکے فرقے اور قوم کو روز بھگتنے پڑتے ہیں نہ انصاف ملتا ہے نہ ریاست کی طرف سے تحفظ ۔ سخت سردی اور بھوک پیاس کے ساتھ بےبس اور مظلوم اقلیتی فرقےکی خواتین اور بچے اپنے ملک کے حاکم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے سر پر تحفظ کی چادر رکھو نہتے مرد وزیراعظم سے انصاف کا وعدہ چاہتے ہیں وہ منتظر ہیں کہ حاکم وقت جو اقتدار لینے سے پہلے یہ روایت دہراتے نہ تھکتا تھا کہ ” دریا کنارے اگر کتا بھی پیاسا مرا تو عمر بن خطاب کی جوابداری ہوگی ” آج گیارہ مظلوم ، بیگناہ محنت کشوں کے لواحقین کو انصاف اور تحفظ تو کیا دیتا ایک معمولی فوٹو سیشن بھی کروانے کو تیار نہیں جس میں مظلوموں کے سروں پرہاتھ رکھ کر دادرسی کرتا دکھائی دیتا۔
جس بےرحمی اورتکبر سے“مملکت خدا داد کےحاکم ” نے مچھ ، بلوچستان کے شہید مزدوروں کے لواحقین کو“بلیک میلر” کہا وہ شاید پاکستان توکیا دنیا کی تاریخ میں بھی انوکھا واقعہ ہے۔ ایک طرف مظلومین اور انکے لواحقین کی ہتک کی گئی تو دوسری طرف پاکستان کی مضبوط کرسی پر بیٹھےغیر ذمہ دار حاکم نے اپنی سیکیورٹی کو انتہائی اہمیت دے کرسوائے عوام کومزید غیر محفوظ ہونے کا احساس ۔دلانے کے کچھ نہیں کیا۔
آج جو لوگ بھی ایسے نااہل ، خودغرض اور بزدل شخص کو “رہنما ” سمجھتے ہیں ان سے میرا سوال ہے کہ کیا آپ ایسے گھر میں رہنا پسند کریں گے جس کا سربراہ آپکو مشکلوں اور پریشانیوں میں صرف اس لیے چھوڑ دے کہ میری زندگی آپ سے زیادہ اہم ہے اور اگر آپ مجھے کسی ناگہانی میں مدد کے لیے پکاریں گے تو میں آپکو ” بلیک میلر ” کہہ کر ہر ذمہ داری سے اپنی جان چھڑا لوں گا ۔ یقین جانیں آپ ایسے آدمی کو سربراہ تو کیا اپنے گھر میں ملازم تک نہیں رکھیں گے نہ ہی گھر کا کوئی ہوش و حواس والا فرد ایسے آدمی پر کبھی اعتبار کرے گا۔
جیسا کہ میں نے شرو ع میں بتایا کہ عمران خان صاحب کے ایسے ان گنت بیانات ہیں جن کو سنجیدگی سے لیا جائے تو شاید اوسط درجے کا شعور رکھنے والا بھی ان کو وزیراعظم تو کیا کسی سیاسی جماعت کا اہم رکن بھی نہ دیکھنا چا ہے مگر ہماری قسمت دیکھیے کہ کس طرح پاکستان کے طاقتور اداروں اورانکے زیر تسلط پھلنے پھولنے والے نیوز میڈیا نےایک غیر ذمہ دار آدمی کو” ذمہ دار، ایماندار اور اہل ” بنا کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی حقیقت میں یہ آدمی نہ ذمہ دار تھا نہ ایماندار اور نہ اتنے بڑے منصب کا اہل۔
اب آئیں آج کے بلاگ میں سابقہ وزیراعظم اور حالیہ ” حقیقی آزادی ” کے روح رواں کے تیسرے اور آخری بیان کی طرف جو انہوں نے اپنی آئینی معزولی کے بعد دیا ۔اپنے دل پسند یوٹیوبرز اور خاص الخاص جرنلسٹس نما کارکنان سے بات چیت کرتے ہوےفرماتے ہیں ” چوروں کو عنانِ حکومت دینے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا جاتا ” مطلب اگر آپ کے ہاتھ میں اقتدار نہیں تو پھر بائیس کروڑ کو زندگی جینے کا حق بھی نہیں ۔ آپ نے کبھی کسی اٹامک پاور کے صدر یا وزیراعظم کا ایسا بیان سنا یا پڑھا ہے ؟؟
کیا کوئی عوام کا “رہنما ” کہلانے والا سوچ بھی سکتا ہے کہ میرے ہاتھ میں اختیار اور طاقت نہیں تو بہتر ہے تمام لوگوں کو ملیا میٹ کردیا جائے چاہے وہ میرے خلاف ہوں یا میرے اپنے ساتھی ، بستیوں کو اجاڑ دیا جائے اور ملک کو تباہ و برباد کردیا جائے کیونکہ طاقت کا سرچشمہ اب میں نہیں کوئی اور ہے۔
اگر آپ اس بیان کوسرسری بھی لیں تب بھی یہ کسی پاگل شخص کی بڑ لگ رہی ہے اور کسی پاگل آدمی کو کوئی مزید پاگل ہی اپنا “لیڈر ” قرار دے سکتا ہے کسی ذی ہوش کا یہ کام نہیں ۔
♣