ظفر آغا
بیچارہ ہندوستانی مسلمان! ابھی بابری مسجد فیصلے پر اس کے آنسو تھمے بھی نہ تھے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کا معاملہ عدالت میں کھل گیا۔ پھر متھرا کی عیدگاہ اور قطب مینار دہلی کی مسجد قوت اسلام کے معاملات بھی عدالت میں زیر بحث ہیں۔ سنہ 1986 میں ایودھیا کی بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سے اب تک مسلم اقلیت مسجد–مندر قضیوں میں ہی پھنسی ہوئی ہے۔ پھر تین طلاق اور ان دنوں مدرسہ سے متعلق معاملات بھی پیش آتے ہی رہتے ہیں۔
پچھلے تقریباً 36 سالوں میں مسلم اقلیت اس طرح شرعی معاملات سے الجھتی رہی۔ اس مدت میں اس کے ہاتھ آیا کیا! بابری مسجد سنہ 1992 میں ڈھا دی گئی اور اس مقام پر اب ایک شاندار رام مندر کی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچنے والی ہے۔ مسجد کے انہدام کے بعد سارے ملک میں ہندو–مسلم فسادات کی لہر دوڑ گئی اور ہزاروں افراد مارے گئے۔ پھر اس کے بعد ممبئی اور گجرات جیسے بھیانک فسادات کا سامنا رہا۔ الغرض اس کے ہاتھ آیا کچھ نہیں۔
ادھر سنگھ پریوار بی جے پی کی قیادت میں ملک کے اقتدار پر پوری طرح قابض ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اب ملک کی سب سے اہم پارٹی بن چکی ہے۔ ملک کم و بیش آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے خواب کو پورا کرنے والا ہے۔ یعنی اس مدت میں مسلم اقلیت حاشیہ پر پہنچ گئی اور ادھر سنگھ ان قضیوں کی آڑ میں عروج پر پہنچ گیا۔
ہندوستانی مسلمان اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ یہ قوم کے لیے غور و فکر کا وقت ہے۔ آخر وہ کرے کیا اور کس طرح آئے دن کھڑے ہونے والے مسائل سے نپٹے۔ کیا ابھی بھی اس کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اسی حکمت عملی کا استعمال کرنا چاہیے جس کا استعمال وہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد سے کرتا آیا ہے! وہ حکمت عملی کیا تھی! بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد ہندوستانی مسلم قیادت نے دو طرفہ لڑائی کی حکمت عملی بنائی تھی۔ پہلے تو مسجد کے معاملے میں زمین کے مالکانہ حقوق کی بنیاد پر وہ عدالتوں میں ’سول سوٹ‘ کی لڑائی لڑتا رہا۔ پھر ساتھ ہی اس نے سڑکوں کا دباؤ بنانے کے لیے مسلم احتجاج کی سیاست بھی کی۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی، پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند جیسی مسلم تنظیموں نے اپنی حکمت عملی پر کام کیا۔ مگر ہوا کیا! جہاں تک عدالتوں کا معاملہ ہے، تو بابری مسجد معاملے میں سپریم کورٹ سے سب واقف ہیں۔ اس فیصلے سے ظاہر ہے کہ عدالتیں ایسے معاملات میں زمین کے مالکانہ حقوق کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقائد کی بنیاد پر فیصلہ کر رہی ہیں۔ عدالتوں پر موجودہ سیاسی ماحول کا دباؤ ہے اور وہ اکثریتی عقائد کی بنیاد پر مسجد–مندر قضیے طے کر رہی ہیں۔ وارانسی کی ایک عدالت نے جس طرح ابھی حال میں گیان واپی مسجد معاملے میں فیصلہ دیا، اس سے ظاہر ہے کہ عدالتیں بابری مسجد معاملے کے طرز پر ہی کام کریں گی۔
ظاہر ہے کہ عدالتوں سے مسلمانوں کو کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔ یعنی عدالت کی لڑائی بے سود رہے گی۔ صرف یہی نہیں، اس طرح مندروں کی تعمیر کو روکنے سے بی جے پی اور سنگھ کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو ہندو دھرم کا ’دشمن‘ قرار دینے میں کامیاب رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح بی جے پی کو سیاسی فائدہ ملتا رہے گا اور مسلمان خسارے میں رہے گا۔ یعنی عدالت میں مقدمے بازی بے سود ہی نظر آتی ہے۔
اب بچا دوسرا راستہ، یعنی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی طرح سڑکوں پر بڑی بڑی ریلیاں نکالی جائیں۔ راقم الحروف لگاتار لکھتا آ رہا ہے کہ اس طریقہ کار سے سنگھ اور بی جے پی کو جس قدر فائدہ پہنچا ویسا تو اس کو کبھی فائدہ ہوا ہی نہیں تھا۔ ایکشن کمیٹی نے بابری مسجد تحفظ کے لیے جذباتی مسلم مجمع اکٹھا کر ریلیاں کیں۔ سنگھ شروع میں خاموش رہا۔ جب اس معاملے پر مسلم شور بہت ہو گیا تو وی ایچ پی نے اس کو مسلمانوں کی مندر مخالفت اور رام دشمنی کا رنگ دے دیا۔
اب ہندوؤں میں رد عمل پیدا ہونا شروع ہوا۔ بس پھر کیا تھا، لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی نے ہندوستانی مسلمان کو ’ہندو دشمن‘ قرار دے دیا۔ بی جے پی کی سیاست ہی مسلمان کو ہندو دشمن ثابت کرنے پر مبنی ہے۔ رام مندر معاملے میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی سڑکوں کی سیاست نے عام ہندو کے ذہن میں مسلمان کو ہندو عقائد اور سماج کا دشمن بنا دیا۔ اور اب یہ سیاست اس قدر کامیاب ہے کہ ریاستوں سے لے کر پارلیمانی چناؤ تک بی جے پی اس حکمت عملی کا استعمال کر ہر چناؤ جیت رہی ہے۔ یعنی مسلمان مسجدوں کے معاملے میں سڑکوں کی سیاست کر کچھ ہاتھ حاصل نہیں کر پائے گا، بلکہ اپنے پیروں پر کلہاڑی ہی مارے گا۔
اب مسلمان کرے تو کرے کیا! نہ عدالتوں سے امید اور نہ ہی سڑکوں سے کوئی فائدہ۔ تو پھر وہ کہاں جائے، کیسے ان مسائل کا حل ڈھونڈے ۔ ظاہر ہے کہ یہ غور و فکر کا موقع ہے۔ بات واضح ہے کہ پرانی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ وہ کیا ہو سکتی ہے! مسلم سماج ابھی تک مسجدوں کی لڑائی اپنے عقائد کی بنیاد پر لڑ رہا ہے۔ لیکن ہندوستان کوئی پاکستان جیسا اسلامی ملک نہیں ہے۔ اس ملک میں درجنوں عقائد ہیں۔ پھر یہاں 80 فیصد آبادی ہندو عقائد پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کا سیاسی ماحول بالکل بدل چکا ہے۔ مسلمانوں کو محض اپنے عقائد ہی نہیں بلکہ دوسرے اور خصوصاً ہندو عقائد کا بھی احترام کرنا ہوگا۔ گیان واپی، متھرا اور دوسری مساجد کے لیے مسلمانوں کو ایک نیا طرز عمل اختیار کرنا ہوگا جو کہ سماجی امن پر مبنی ہو اور جس سے ہندو–مسلم تکرار ختم ہونے کی گنجائش پیدا ہو۔ یہ راستہ باہمی مفاہمت پر ہی مبنی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہندومسلم ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح عدالت کے باہر یا سڑکوں پر آپسی ڈائیلاگ سے ہی مسجدمندر قضیے طے ہو سکتے ہیں۔
یہ راقم الحروف کی ذاتی رائے ہے۔ اگر اس طرح مسائل حل ہو سکیں تو اس رائے پر غور اور پھر عمل ہونا چاہیے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی