بالاخر ریپبلکن پارٹی کے رکن” کیون میکارتھی”، ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے سپیکر منتخب ہوگئےہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں ایوان نمائندگان کے ہر دوسال بعد انتخاب ہوتےہیں اور اکثریتی پارٹی اپنا سپیکر منتخب کرتی ہے۔ لیکن اس دفعہ ریپبلکن پارٹی واضح اکثریت سے نہ جیت سکی جس کی وجہ سے پارٹی کے 20 ارکان نے کیون میکارتھی کو سپیکر منتخب کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سپیکرشپ کے لیے انہیں 218 ووٹوں کی ضرورت تھی۔
تین جنوری کو جب ایوان نمائندگان( جسے امریکہ میں “ہاؤس” کہا جاتا ہے) کا اجلاس طلب کیا گیا تو سب سے پہلےسپیکر کا انتخاب ہوتا ہے اور پھر حلف برداری اور پھر مختلف کمیٹیوں کی تشکیل کی جاتی ہے۔لیکن جب سپیکر کا انتخاب شروع ہوا تو 20 ارکان نے انہیں ووٹ نہ دیا جس کی وجہ سے وہ ناکام ہوگئے۔ دو جنوری کو مختلف اوقات میں تین دفعہ ووٹنگ ہوئی لیکن وہ سپیکر منتخب نہ ہوسکے۔
اسی دوران وہ ناراض ارکان ( جو کہ دائیں بازو کے انتہا پسند نظریات کے حامل ہیں) سے مذاکرات کرتے رہے ۔دوسرے دن بھی چار دفعہ ووٹنگ ہونے کے باوجود وہ سپیکر منتخب نہ ہوئے۔ تیسرے دن بھی چار دفعہ ووٹنگ ہونے کے باوجود وہ سپیکر منتخب نہ ہوسکے اور پھر چوتھے دن چوتھی دفعہ ووٹنگ یعنی 15 ویں ووٹنگ میں وہ سپیکر منتخب ہوگئے۔
سپیکر شپ کے لیے انھیں باغی ارکان کے انتہا پسند ایجنڈے کوقبول کرنا پڑا جسے وہ پہلے قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔مبصرین کا خیال ہے کہ کیون میکارتھی انتہائی کمزور سپیکر ثابت ہونگے اور انتہا پسند ارکان کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے اور اگر انھوں نے ان کی کوئی ڈیمانڈ نہ مانی تو انہیں سپیکرشپ سے ہٹا دیا جائے گا۔اس ساری صورتحال سے ریپبلکن پارٹی کے باقی ارکان انتہائی ناخوش ہیں اور ان کا کہنا ہےکہ ہم انتہا پسند ارکان کے ہاتھوں یرغمال بن گئے ہیں۔ اور ہم بھی جو” کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر” کرنا چاہتے تھے وہ شاید نہ کرسکیں۔
امریکی تاریخ میں ایسا پہلے 1859 اور پھر 1923 میں ہوا تھا اوراب 2023 میں سو سال بعد سپیکر کا انتخاب تعطل کا شکار ہوا۔مبصرین کے خیال میں اس انتہا پسندی کے ذمہ دار صدر ٹرمپ ہیں جنھوں نے اپنے دور میں اس خلیج کو مزید وسیع کردیا تھا۔ بلکہ سپیکر کے انتخاب کے دوران ان کا مسلسل انتہا پسند ارکان سے رابطہ رہا ۔ کیون میکارتھی کی ساتھی مارجرین ٹیلر نے ہاؤس میں اپنا سیل فون لہراتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا مسلسل انتہا پسند ارکان سے رابطہ ہے اور انھوں نے کیون میکارتھی کے حق میں ووٹ ڈالنے کو کہا ہے ۔
اس انتخاب سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ اگلے دوسال صدر بائیڈن اپنی مرضی کا کوئی بل پاس نہیں کروا سکیں گے۔ انتہا پسند ارکان جو بل پاس کریں گے وہ سینٹ سے منظور نہیں ہوگا کیونکہ سینٹ میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے ۔بائیڈن حکومت کو سب سے بڑی مشکل ستمبر 2023 میں آنے والی ہے جب کانگریس نے اگلے سال کے اخراجات کو منظور کرنا ہوتا ہے جس کے لیے انتہا پسندوں کے اپنے مطالبات ہونگے۔
بہرحال یہ جمہوریت ہے، کچھ لو اور کچھ دو کی سیاست کرنی پڑتی ہے اور سمجھوتے بھی کرنے پڑتے ہیں۔۔۔۔
امریکہ کی ڈائری۔محمد شعیب عادل